تحریر : قادر خان یوسف زئی امریکی انتظامیہ نے اپنے مطالبات منوانے کے لئے پاکستان پر دبائو بڑھانے کے لئے مختلف طریقے اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ عسکری امداد میں کٹوتی و بندش سمیت امریکہ کی وزارتِ خارجہ نے پاکستان کا نام ان ملکوں کی فہرست میں شامل کر دیا ہے جہاں مبینہ طور پر مذہبی آزادیوں کی یا تو سنگین خلاف ورزیوں کا ارتکاب کیا جاتا ہے یا مذہبی آزادیاں پر قدغنیں لگائی جاتی ہیں۔امریکہ کی وزارتِ خارجہ کے ایک ترجمان کی طرف سے جمعرات کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ 1998 کے بین الاقوامی مذہبی آزادیوں کے قانون کے تحت بنائی گئی اس فہرست میں جن ممالک کے نام شامل ہیں ان میں برما، چین ارٹیریا، ایران، شمالی کوریا، سوڈان، سعودی عرب، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان شامل ہیں۔اس فہرست کو خاص تشویش کے ممالک یا Countries of Particular Concern کہا جاتا ہے۔تاہم وزارت خارجہ نے پاکستان کو اس فہرست میں تو شامل نہیں کیا لیکن پاکستان کو سپیشل واچ لسٹ میں شامل کر دیا گیا ہے۔بیان میں مزید کہا گیا کہ دنیا بھر میں بہت سی جگہوں پر لوگوں کو ان کے مذہب اور عقائد کی وجہ سے جبر، تشدد اور قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس بیان میں کہا گیا کہ آج بھی دنیا کے کئی ملکوں میں حکومتیں مذہب تبدیل کرنے یا اپنے عقائد کے مطابق عبادت کرنے یا کسی مخصوصی طریقے سے عبادت کرنے کی آزادیوں کو پامال کرتی ہیں۔مذہبی آزادیوں کے قانون کے تحت ہر سال وزیر خارجہ ان ملکوں کی نشاندہی کرتے ہیں جہاں مذہبی آزادیوں کی خلاف ورزیوں کو یا تو نظر انداز کیا جاتا ہے یا اس کی اجازت اور سرپرستی کی جاتی ہے۔ لیکن حیران کن طور پر امریکی وزرات خارجہ کو بھارت کو اپنی لسٹ میں ڈالنے کا کبھی خیال نہیں آیا جہاں تمام مذہبی اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کو مذہبی مسائل کا سامنا ہے۔
ظاہر یہی ہے کہ پاکستان کا نام سپیشل واچ لسٹ میں شامل کرنا دراصل پاکستان پر مزید دبائو بڑھانے کیلئے ہے ورنہ اقوام عالم کے سامنے بھارت کا کردار مخفی نہیں ہے کہ مقبوضہ کشمیر سمیت پورے بھارت میں مذہبی اقلیتوں کو تحفظ نہیں ہے ۔ مقبوضہ کشمیر تو مسلم اکثریتی علاقہ ہے لیکن بھارت نے لاکھوں کی تعداد میں اپنے فوجی مسلط کررکھے ہیں جہاں کشمیریوں کو اسلامی شعائر کے مطابق آزادی حاصل نہیں ہے ۔ اسی طرح بھارت میں مسلمانوں سمیت دلت ، عیسائی و دیگر مذہبی اقلیتوں کو شدت پسند ہندوئوں کا سامنا ہے جو ان کی عبادت گاہوں پر زبردستی قبضے کرلیتے ہیں اور مذہبی اقلیتوں پر شدت پسند ہندوئوں کی جانب سے جبر ، تشدد اور مختلف صعوبتیں ڈھائی جاتی ہیں۔
بھارت میں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف انتہائی متشدد رویہ اختیار کیا جاتا ہے ۔ سچر کمیٹی، منیارٹی کمیشن اور دیگر پینلس کی رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارتی مسلمان شدید پسماندگی کا شکار ہیں، بھارت میں ہندو انتہا پسند جماعت کی جانب سے یہ دعوی بھی کیا جاتا ہے کہ بارہ سو سال کی غلامی کے بعد ملک کو آزادی ملی ہے جب کہ بھارتی مسلم حلقے اس دعوے کو شدت کے ساتھ مسترد کرتے ہیں کہ کیسے اس ملک میں کہا جا رہا ہے کہ ”بارہ سو سال کی غلامی کے بعد ملک میں پہلی مرتبہ ہندو راجیہ قائم ہوا۔” بھارتی مسلم طبقے نے اس کے جواب میں کہا ہے کہ ”بھارت پارلیمانی جمہوریت کی بنیاد پر قائم ہوا اسے بارہ سو سال بعد نہیں بلکہ دو سو سال بعد انگریزوں کی غلامی سے نجات ملی ہے۔”اقوام متحدہ کی نمائندہ تنظیم ایمنسٹی انٹر نیشنل نے اپنی رپورٹ میں بھارت کی سازشوں کو کھل کر بیان کیا کہ بھارت امن معاہدے کو سبوتاژ کررہا ہے، لائن آف کنٹرول، چکوٹھی، کیل، لیپہ،تتری نوٹ، عباس پور، کھوئی رٹی اور نکیال سمیت ملحقہ علاقوں پر سینکڑوں بارخلاف ورزی کرتے ہوئے گولہ باری کررہا ہے جس کے نتیجے میں سینکڑوں شہری شہید اور ہزاروںسے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔
بھارت اور اسرائیل کے گٹھ جوڑ اور اسرائیلی ہتھیاروں کے استعمال کررہا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ بھارت دنیا کا بہت بڑا دہشت گرد ملک ہے۔اسرائیل سے اوسطاََ ہر برس ایک ارب ڈالر کے ہتھیار خریدنے والا بھارت اسرائیل و امریکہ کے ساتھ ملکر خطے میں کھلے عا م دہشت گردی کررہا ہے لیکن اس کی انتہا پسندی پر اقوام عالم سمیت مسلم دنیا بھی خاموش ہے۔ بھارت میں ان ہی فسطائیت نظریات کے تحت روزانہ مسلمانوں کو ”پاکستان”یا ‘قبرستان”بھیجنے کیلیے غیر مسلموں کو اکسایا جاتا ہے۔ اسی ذہنیت کی وجہ سے امرتسر پنجاب میں ”پروین توگاڑیا”کے حوالے سے آیا تھا کہ ”مسلمانوں کو ہرسطح پر نوکریوں سے محروم رکھا جائے اور انہیں اس حد تک فاقہ کشی پر مجبور کیا جائے کہ ان کیلیے ”پاکستان”چلے جانے کے سوا کوئی چارہ نہ بچے”۔”گو رکھشا ” کے نام پر مسلمانوں کو جس طرح تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اس کی مثال بھی نہیں ملتی، سنگھ پریوار کے مسلح افراد کاگائے کی رکھوالی کے نام، پولیس کی طرح ناکہ بندی کرنا یا چیک پوسٹ قائم کرکے تاجروں کو زدو کوب کرناایک معمول کی بات بن گئی ہے اور بے حال مسلمان تاجروں کو پولیس کے حوالے کرکے مقدمات قائم کرنا بھی ایک عام سی بات ہوگئی ہے۔ شرمناک بات یہ ہے کہ پولیس اس پورے عمل میں برابر کی شریک ہوتی ہے، جس کی وجہ سے مسلمان مالی اور جسمانی نقصان کے باوجود بھی سارا خسارا برداشت کرکے یا تو خاموش رہ جاتا ہے یا پھر قانونی چارہ جوئی کے صبر آزما دور سے گذرتے ہوئے نفسیاتی طور پر بھی تباہ ہوجاتا ہے۔
مذہبی دہشت گردی ایک پیچیدہ مسئلہ ہے اس کا کسی ملک، دین اور شہریت سے کوئی تعلق نہیں اور سب سے بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ اسلامی ممالک اور مسلمان دہشت گردی کا سب سے زیادہ نشانہ بنے ہیں۔اسلام فوبیا کے شکار مغربی ممالک کا یہ رویہ واقعہ نائن الیون کے بعد شدت اختیار کرگیا، خاص کر امریکی معاشرے میں عدم برداشت اور مذہبی رواداری تیزی سے ختم ہونا شروع ہوئی نائن الیون کے واقعے کے بعد ہندو انتہا پسندوں نے بھی مسلمانوں کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے عجیب و غریب طریقے اپنائے جس میں سکھوں کو مسلمانوں کے ساتھ نتھی کرنا بھی تھا۔ مختلف گوردواروں پر حملے کے بعد اوک کریک گوردوارے کے سربراہ ڈاکٹر ستونت سنگھ کلیکا کا کہنا تھا کہ سکھوں کو کافی عرصے سے دہمکیاں مل رہی تھیں، سکھ رہنما اور انسانی حقوق کی کارکن محترمہ ولیری کور نے اس واقعے کو امریکا میں مذہبی منافرت کا شاخسانہ قرار دیا، ویکری کور کا کہنا تھا کہ امریکی میڈیا پر مسلمانوں کے خلاف چلنے والی مہم سے سکھ بھی متاثر ہو رہے ہیں۔بیلجیم کے دارالحکومت برسلز میں مسلمانوں کے حقوق بیلجیم نامی سول سوسائٹی کی زیر قیادت برسلز عدلیہ کے سامنے جمع ہوئے اور بڑھتے ہوئے اسلام فوبیا اور نسلیت پرستی کے سامنے بند باندھنے کی اپیل کی گئی، مسلمانوں کے حقوق بیلجیم نامی سول سوسائٹی کے سربراہ فواد بینیک ہلف نے کہا کہ پر امن ماحول میں وقار کے ساتھ زندگی گذارنے، معاشرے کا ایک حصہ بننے اور معاشرے میں مساوی شرکت کے علاوہ ہمارا اور کوئی مطالبہ نہیں ہے۔ چار لیوئی شہر میں گھریلو چپقلش کے بعد حراست میں لیے جانے والے اور پولیس اسٹیشن میں اپنی زندگی سے محروم ہونے والے شمالی افریقہ النسل طارق یوسف کی موت کی وجہ کو بھی منظر عام پر لانے اور ذمے داروں کو عدالت کے سامنے پیش کرنے کامظاہرین نے مطالبہ کیا تھا۔
اسلام فوبیا میں گرفتار مغربی ممالک کے شہریوں کے روئیے مسلمانوں کے خلاف انتہا پسندی سے بھی بڑھ کر ثابت ہو رہے ہیں۔حکومت ہالینڈ اور مسلمانوں کے درمیان ارتباط کی آرگنائزیشن کے سربراہ ابوبکر ازتور کے مطابق حالیہ سالوں میںہالینڈ میں مقیم مسلمانوں کے خلاف حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور مساجد میں خنزیر کے سر پھینکے جانے کے واقعات بھی رونما ہوئے۔جب کہ فرانس کے وزیر داخلہ نے تسلیم کیا ہے کہ مسلم مخالف افعال کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، فرانسسی وزیرداخلہ مینول والس نے اسلام فوبیا کا لفظ استعمال کرنے کے بجائے اسلام مخالف کارروائیوں کی بات کی تھی،حالاں کہ فرانس میں مقیم مسلمان کئی سالوں سے اسلام فوبیا کا شکار ہوتے آرہے ہیں۔جس میں مسلم خواتین کے حجاب پر عائد پابندیاں بھی شامل ہیں۔انگلستان کی پولیس نے فیس بک اور ٹویٹر پر اسلام کے خلاف تبلیغ کرنے والے چار افراد کو گرفتار کیا تھا ، 22 سالہ بنجامین اور اس کے دیگر ساتھی فیس بک اور ٹویٹر پر اسلام مخالف بیانات دے کر مسلمانوں کے جذبات سے کھیل رہے تھے۔لینکو لنشیر اور سومرسٹ شہروں کی پولیس نے اسلام فوبیا کی تبلیغ کرنے کے جرم میں کچھ افراد سے تفتیش بھی کی اور ان پر مذہبی اور نسلی نفرت پھیلانے کا الزام لگایا۔
امریکا میں مسلمانوں کی آبادی 30لاکھ بتائی گئی جو 2030ء تک بڑھ کر 60لاکھ20ہزار تک پہنچ جائے گی۔شمالی امریکا میں1990سے2010ء تک مسلمانوں کی آبادی میں 91فیصد کی رفتار سے اضافہ ہوا اور مسلم افراد کی تعداد 10لاکھ80ہزار سے بڑھ کر30لاکھ 50ہزار تک پہنچ گئی جب کہ آنے والے بیس سالوں میں شمالی امریکا میں مسلم افراد کی تعداد 80لاکھ 90ہزار ہونے کا امکان ہے۔برطانیہ میں مسلمانوں کی آبادی20لاکھ 30ہزار سے بڑھ کر50لاکھ 60ہزار اور فرانس میں 40لاکھ 70ہزار سے بڑھ کر60لاکھ 90ہزار کے قریب پہنچ جائے گی جب کہ فرانس میں اس وقت بھی مساجد کی تعداد کھتولک چرچ سے زائد ہے۔2010ء تک یورپ میں مسلمانوں کی آبادی5کروڑ کے قریب تھی جو 2030تک بڑھ کر6کروڑ کے قریب پہنچ جائے گی۔فورم آن ریلجن اینڈ پبلک لائف نامی ایک امریکی ادارے کی جانب سے بین المذاہب شرح آبادی کا ایک سروے کیا گیا جس کے مطابق 2030ء میں جب دنیا کی آبادی تقریبا8ارب3کروڑ سے تجاوز کر جائے گی تو اس وقت دنیا میں مسلمانوں کی آبادی 2ارب20کروڑ ہوگی۔
اگر اجمالی جائزہ لیں تو پاکستان کے مقابلے میں امریکہ اور یورپ میں مذہبی آزادی کی خالف ورزیاں اپنے عروج پر ہیں۔اسلام امریکا ریلیشن کونسل نے اعلان کیا ہے کہ امریکا میں مساجد پر حملوں کی تعداد میں دوگنا اضافہ ہو ا ہے۔ایرانی ٹی وی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ معلوم ہوا ہے کہ رواں عیسوی سال کے آغاز سے15 مارچ2017 تک امریکہ میں مساجد پر حملوں اور دھمکیوں کے32 واقعات جبکہ 2016میں اسی مدّت میں 16 واقعات پیش آئے تھے۔امریکہ میں مسلمان رہنماوں اور مسلمانوں کے حقوق کے حامی گروہوں نے اس بات پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے کہ امریکہ میں اسلاموفوبیا میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ میں مذہبی آزادی کا نظریہ فرسودہ و کھوکھلا ہے ۔ اس کی ایک مثال امریکی شہر بلومنگٹن میں ایک مسجد پر دھماکا خیز مواد کے ذریعے بم حملہ سے لی جا سکتی ہے جب لوگ وہاں فجر کی نماز ادا کرنے کے لیے جمع تھے۔ مسجد پر حملے کا یہ واقعہ امریکی ریاست مینیسوٹا کے شہر بلومنگٹن میں پانچ اگست کو پیش آیا تھا۔ بلومنگٹن کے پولیس چیف جیف پوٹس کے مطابق دار الفاروق اسلامک سینٹر نامی مسجد پر مقامی وقت صبح پانچ بجے بم دھماکا اس وقت ہوا، جب مقامی مسلمان وہاں فجر کی نماز کے لیے جمع تھے۔پولیس کے مطابق یہ دھماکا دیسی ساختہ بم کی مدد سے کیا گیا۔دار الفاروق اسلامک سینٹر کے ڈائریکٹر محمد عمر کا کہنا تھا کہ دھماکے کے فوری بعد ایک نمازی نے ایک پک اپ ٹرک میں کسی کو تیزی سے فرار ہوتے ہوئے دیکھا۔ عمر کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس مسجد میں زیادہ تر صومالیہ سے تعلق رکھنے والے مسلمان نماز ادا کرتے ہیں اور ای میل اور ٹیلی فون کے ذریعے ایک سے زائد مرتبہ اس مسجد پر حملے کی دھمکیاں بھی موصول ہوئی تھیں۔اسی مسجد میں نماز ادا کرنے والے یاسر عبدالرحمان نے مقامی میڈیا سے گفت گو کرتے ہوئے کہا، ”دیگر غیر ملکیوں کی طرح ہم بھی اس ملک میں اسی لیے آئے تھے کہ یہاں عبادت کرنے کی آزادی ہے۔ لیکن اب یہی آزادی خطرے میں ہے اور ہر امریکی شہری کو اس واقعے کو اپنی توہین سمجھنا چاہیے۔”مینیسوٹا میں امریکی مسلمانوں کی تنظیم کے ڈائریکٹر اسد زمان نے اس حملے کو جلتی پر تیل ڈالنے والا عمل قرار دیا۔دوسری جانب مینیسوٹا میں ایف بی آئی کے ایک خصوصی ایجنٹ رچرڈ تھورونٹن کا کہنا تھا کہ تفتیش کار اس بات کی تحقیق کر رہے ہیں کہ کیا یہ ایک ‘نفرت پر مبنی جرم’ تھا، اور اس واقعے میں کون لوگ ملوث ہیں۔ یہ ایف بی آئی کا منفرد و قابل غور بیان تھا کہ امریکہ میں کسی اقلیت پر حملہ ہوتا ہے تو کیا یہ ایک نفرت پر مبنی جرم ہے کہ نہیں ۔ امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد سے مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ حال ہی میں مینیسوٹا ہی میں مسلمانوں کے ایک قبرستان میں توڑ پھوڑ کی گئی تھی اور حملہ آوروں نے قبروں پر سواستکا کے نشان بھی بنائے تھے۔ امریکا بھر میں باحجاب مسلمان خواتین کو حراساں کیے جانے اور اسکولوں میں مسلم طلبا کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھے جانے جیسے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔بلومنگٹن مسجد کی انتظامیہ نے اس حملے میں ملوث افراد کی نشاندہی کرنے والے کو انعام میں دس ہزار امریکی ڈالر دینے کا اعلان کیا ہے جب کہ امریکا میں مسلمان شہریوں کی سب سے بڑی تنظیم کی مقامی شاخ نے بھی ایسا ہی اعلان کیا ہے۔
اس واقعے کے علاوہ بھی کئی ایسے واقعات ہیں جہاں امریکہ میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جاتا ہے ۔ ان واقعات پر خاموشی کو کیا امریکی انتظامیہ کی پالیسی قرار دی جائے یا پھر کسی مخصوص عناصر کی جانب سے مذہبی اشتعال انگیزی ۔ پاکستان میں تو مذہبی اقلیتوں سے زیادہ مسلم اکثریتی مذہبی جگہوں پر شدت پسندی کے واقعات رونما ہوئے ہیں تو بھلا کس طرح امریکہ یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ پاکستان کا نام کسی ایسی واچ لسٹ میں ڈالا جائے جس کا توازن جانب دارنہ اور اس کی زد میں امریکہ سب سے پہلے آتا ہے۔امریکی علاقے اوریگن میں شریعہ مخالف ریلیوں کے تناظر میں اس قصبے میں قائم ایک اسلامک سینٹر کے رہنماؤں نے سلامتی کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ اس مسجد کے باہر مسلمانوں کو دھمکیاں دی تھیں۔ یہ مذہبی جبر کی بدترین مثال تھی کہ امریکی علاقے اوریگن میں ایک مسجد میں قریب نصف درجن مسلمانوں نے ایک مقامی مسجد میں مرکزی دروازے کو مقفل کر کے نماز ادا کی۔ کیونکہ اس مسجد کے مرکزی دروازے پر مسلمانوں کو قتل کی دھمکیاں دی تھیں، جس کے بعد اس اسلامک سینٹر کی سلامتی کے حوالے سے تشویش ظاہر کی جا رہی ہے۔ یہ صرف دہمکیاں نہیں تھیں بلکہ دہمکیوں کے واقعے کے صرف دو ہفتے بعد اوریگن سے 110 کلومیٹر پورٹ لینڈ میں حجاب پہننے والی مسلمان خواتین کو بچانے کی کوشش کرنے والے دو افراد کو ایک حملہ آور نے چاقوؤں کے وار کر کے ہلاک کر دیا تھا، جب کہ حملہ آور نے اس دوران اسلام مخالف نعرے لگائے تھے۔ امریکہ میں ان گنت واقعات انفردی نوعیت کے کہے جاسکتے ہیں لیکن امریکی موقف اُس وقت کمزور پڑ جاتا ہے جب امریکی علاقے سیٹل اور قریب دو درجن دیگر شہروں میں شریعہ مخالف ریلیوں کے انعقاد کا اعلان کیا گیا تھا۔ مقامی مسلم رہنماؤں کے مطابق پورٹ لینڈ حملہ اور، اوریگن واقعہ امریکا بھر میں مسلمانوں کے خلاف بڑھتے جرائم کے رجحان کی نشان دہی کرتے ہیں۔گزشتہ برس نومبر میں صدارتی انتخابات کے بعد سے امریکا میں انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے افراد مسلمانوں کو ‘بڑا خطرہ’ قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف کارروائیوں میں بڑھوتی کی وجہ بنے ہیں۔سیٹل کے سابق میئر مائیک مک گِن، جو اسلام مخالف ریلی کے خلاف ہونے والے مظاہرے میں تھے، کے مطابق، ”ہماری مسلم برادری اس وقت شدید قسم کے دباؤ کا شکار ہے۔ مقامی رہنماؤں کے لیے نہایت ضروری ہے کہ وہ ان کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کریں اور یہ واضح کریں کہ ہم مسلمانوں کے خلاف نفرت، نسل پرستی اور تشدد کے خلاف ہیں۔”واضح رہے کہ امریکا میں ‘ایکٹ فار امیریکا’ نامی تنظیم ملک بھر میں ‘دہشت گردی کے خلاف جنگ’ اور ‘قومی سلامتی کی اہمیت’ کے نعروں کے ساتھ ریلیاں منعقد کروا رہی تھی۔ اس تنظیم کا کہنا ہے کہ وہ مغرب میں بسنے والے ‘پرامن مسلمانوں’ کے ساتھ ہے، تاہم مسلم رہنماؤں کے مطابق یہ تنظیم اسلام مخالف جذبات ابھارنے میں سرگرم ہے۔ ایکٹ فار امیریکا نامی تنظم اسلامی شریعہ کو امریکی جمہوریت سے متصادم قرار دیتی ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ کے منتخب ہونے کے بعد کئی ایسے اقدامات منظر عام پر آرہے ہیں جس سے عالمی امن کو براہ راست خطرات لاحق ہیں۔ خاص کر صدر ٹرمپ کا مسلمانوں کے خلاف رویہ اب کسی سے بھی پوشیدہ نہیں رہا ہے جب خاص طور پر اسرائیل خود ساختہ ریاست کے دارلحکومت کے حوالے سے اقوام متحدہ ، اسلامی تعاون تنظیم اور عرب لیگ نے امریکہ کی جانب دارنہ مذہبی پالیسی کو بے نقاب کیا ۔ لیکن امریکی ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ اس نے اقوام متحدہ کو اپنی مرضی کے تابع بنایا ہوا ہے اور امریکی امداد کے بہانے اقوام متحدہ امریکی پالیسیوں کی غلام بنی ہوئی ہے ۔ پاکستان کے خلاف امریکی دبائو میں مسلسل اضافہ دراصل امریکی صدر کی عجلت آمیز پالیسی کا تسلسل ہے ۔ اگر دیکھا جائے تو جس طرح امریکہ نے عراق اور افغانستان میں مذہب کے نام پر جارحیت کی اس کے بعد کم ازکم امریکہ کے پاس کوئی جواز نہیں رہ جاتا کہ وہ کسی بھی ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت کرے ۔ امریکہ نے مذہبی آزادیوں کے نام پر جو فہرست بنائی ہے اُس میں زیادہ تر وہ ممالک ہیں جو امریکہ استعماری پالیسیوں کا شکار ہیں اور امریکی غلامی سے نکلنے کیلئے جدوجہدکررہے ہیں۔ امریکہ نے اپنے مقاصد کے حصول کیلئے پاکستان پر دبائو بڑھانے کیلئے نام نہاد واچ لسٹ میں نام شامل کردیا ہے۔ لیکن اس سے امریکہ کے عزائم بر آور نہیں ہوسکتے ، کیونکہ اقوام عالم اچھی طرح جانتی ہے کہ پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانی دینے والی مملکت ہے اور اسی پاداش میں مذہب کے نام پر پاکستان پر دہشت گرد و شدت پسند مسلط کئے گئے جنھوں نے پاکستان کے امن و سلامتی کو خطرے میں ڈال رکھا ہے ۔ پاکستانی ریاست شدت پسندوں کے خلاف مصمم ارادہ لئے ہوئے ہے لیکن امریکہ افغانستان میں اپنے مقاصد کے حصول کیلئے پورے خطے میں داعش اور بھارت شدت پسندوں کو مسلط کرنے کا خواہاں ہے۔
امریکی عوام اپنے صدر کے ہر روز بدلتے تیور اور بیانات سے پریشان ہے کہ غیر متوقع پر ایسا صدر کس طرح ان پر مسلط ہوگیا ہے جس کی وجہ سے امریکی ریاستوں کو خطرات لاحق ہیں اور دنیا میں امریکہ کے قریب ترین اتحادی و حلیف اب مخالف بنتے جارہے ہیں اور امریکہ کے خلاف واضح نیا بلاک تشکیل پا رہا ہے۔ یہ بلاک امریکی عوام کے خلاف نہیں بلکہ امریکی عوام پر مسلط ایسی انتظامیہ کے خلاف ہے ۔ جس کی پالیسیوں کی وجہ سے عالمی امن کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ امریکی عوام کو اپنے سرکاری انتظامیہ بالخصوص صدر ٹرمپ کو سپشل واچ لسٹ میں رکھنا ہوگا ۔ کیونکہ امریکہ کو سب سے زیادہ خطرہ اپنے صدر سے ہے۔امریکی صدر ٹرمپ کو اگر امریکن شدت پسند صدر کہا جائے تو شائد یہ غلط نہ ہوگا کیونکہ ان کی شدت پسندی کے نظریئے سے امریکہ عالمی طور پر تنہا ہوچکا ہے اور تمام ریاستوں کی یک جہتی کو تباہی کا سامنا ہے۔