اسلام آباد (جیوڈیسک) پاناما لیکس کیس سے متعلق سماعت میں جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا ہے کہ متنازع دستاویز کو چھان بین کے بغیر کیسے تسلیم کریں؟ عدالت ٹرائل کورٹ نہیں جو یہ کام کرے، یوسف گیلانی کیس توہین عدالت کی درخواست پر فیصلہ کیا تھا۔ آپ ہمیں خصوصی یا احتساب عدالت سمجھ کر فیصلہ لینا چاہتے ہیں۔
سپریم کورٹ میں پاناما لیکس سے متعلق آئینی درخواستوں کی سماعت جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ کر رہا ہے۔ سماعت میں تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری کے جوابی دلائل جاری ہیں۔
جسٹس اعجاز افضل کا کہنا ہے کہ عدالت نے ہمیشہ غیر متنازع حقائق پر فیصلے کیے، عدالت اپنے فیصلوں میں بہت سے قوانین وضع کر چکی ہے۔
جسٹس شیخ عظمت نے نعیم بخاری سے استفسار کیا کہ آپ مریم نواز کے دستخط والی دستاویز کو درست کہتے ہیں، شریف فیملی اس دستاویز کو جعلی قرار دیتی ہے۔
اس پر نعیم بخاری نے جواب دیا کہ مریم نواز کی دستخط والی دستاویز میں نے تیار نہیں کی۔
جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ آپ ہمیں خصوصی یا احتساب عدالت سمجھ کر فیصلہ لینا چاہتے ہیں، ماہرین عدالت میں بیان دیں تو ان کی رائے درست مانی جاتی ہے۔
تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ گزشتہ روز گلف اسٹیل ملز کے واجبات کا نکتہ اٹھایا تھا۔
اس پر جسٹس عظمت نے کہا کہ جو بات پہلے کر چکے اسے دہرا کر وقت ضائع نہ کریں۔
کمرہ عدالت میں شدید رش ہے اور سیاسی رہنماؤں وکلا کی بڑی تعداد موجود ہیں۔