تحریر : عماد ظفر ڈان لیکس یا نیوز گیٹ کا معاملہ گزشتہ کئی ماہ سے سول ملٹری قیادت میں کشیدگی پھیلانے اور افواہوں کا بازار گرم کرنے کے بعد بالآخر اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا. ڈان لیکس کے بارے میں وزیراعظم پاکستان کے نوٹیفیکیشن کو ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے متناشرین ٹویٹ کے ذریعے رد کرنے کے بعد ملک میں اداروں کے درمیان ایک ٹکراؤ کی سی کیفیت طاری ہو گئی تھی. اس کیفیت کو بہتر کرنے اور کشیدگی میں کمی لانے کیلئے وزیر اعظم پاکستان اور آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کے مابین ہونے والی ملاقات نے اہم کردار کیا. اور بالآخر ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے نہ صرف متانزعہ ٹویٹ کو واپس لینے کا اعلان کیا بلکہ یہ بیان بھی دیا کہ متنازعہ ٹویٹ میں براہ راست کسی بھی ادارے یا شخصیت کو نشانہ نہیں بنایا گیا تھا اور وزیر اعظم کے نوٹس پر اب فوج مکمل اطمینان کا اظہار کرتی ہے.
یوں ڈان لیکس کا ایک غیر اہم مدعا جو کہ صرف “شکریہ راحیل شریف” کی مہم کا ایک حصہ تھا بالآخر ختم ہوا. لیکن یہ مدعا یا ڈی جی آئی ایس پی آر کی ٹویٹ ایک اتنہآئی سیدھی اور سادہ سی کہانی کی مانند نہیں ہے جو ہر عام فہم آدمی کی سمجھ میں آ سکے .اقتدار اور اختیارات کی جنگ میں کچھ لڑائیاں پردے کے پیچھے سے لڑی جاتی ہیں اور یہ لڑائی بھی ان میں سے ایک تھی.ڈان لیکس نہ تو کسی بھی طور قومی سلامتی کا معاملہ تھااور نہ ہی اس کی بدولت قومی سلامتی سے متعلق کوئی اہم راز افشا ہوا. راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع اور سلامتی و خارجہ پالیسی پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کا یہ معاملہ عام عوام کو میڈیا کے بہت بڑے حصے اور چند سیاسی جماعتوں کے تعاون سے اس طرح سے بنا کر پیش کیا گیا کہ گویا جیسے اس مسئلے کی وجہ سے قومی سلامتی داؤ پر لگ گئی تھی . اس مدعے اور پس پردہ لڑائی نے پرویز رشید اور طارق فاطمی جیسے انتہائی قابل اور ذہین شخصیات کی قربانی لینے کے علاوہ پوری دنیا میں پاکستان کیی جگ ہنسائی کروائی.
کچھ طاقتوں اور افراد کا یہ خیال تھا کہ اس تنازعے کی مدد سے نواز شریف کو دبا کر یا تو مریم نواز کی بھی قربانی لی جائیگی یا پھر نواز شریف کو جبری طور پر رخصت کر دیا جائے گا. لیکن اکثر خوش فہم تجزیہ نگار اور سیاسی قـائدین یہ حقیقت فراموش کیئے بیٹھے تھے کہ نواز شریف وہ واحد قومی رہنما ہیں جنہیں بین الاقومی برادی کی تائید و حمایت حاصل ہے. اور ان کو پانامہ یاڈان لیکس جیسے غیر اہم مدعوں کی بنا پر نکال باہر پھینکنا ناممکن ہے. دوسری جانب راحیل شریف کے جانے اور نئے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کے آنے سے بھی دفاعی اداروں کی حکومت دوارےجارحانہ پالیسی میں بے حد فرق آیا. جنرل قمر جاوید باجوہ نہ تو کسی شکریہ کی مہم پر یقین رکھتے ہیں اور نہ ہی سویلین معاملات میں ٹانگ اڑانا مناسب سمجھتے ہیں.چونکہ ڈان لیکس کا تنازعہ انہیں ورثہ میں ملا تھا اور ان کے ادارے میں اکثر شکریہ راحیل شریف کی مہم چلانے والے اور مشرف کے ہمدردوں کے خیالات کو فوری طور پر یکسر تبدیل کرناناممکن تھا اس لیئے اس معاملے کو منطقی طور پر انجام دینے کیلئے شاید دانستہ طور پر ڈی جی آئی ایس پی آر سے ٹویٹ کروائی گئی تا کہ ایسے تمام افسران جو کہ شکریہ راحیل شریف کی مہم کا حصہ تھے نہ صرف ان کی انا کی تسکین کی جا سکے بلکہ ڈان لیکس کی خبر جس میں بتایا گیا تھا کہ شہباز شریف نے عسکری قیادت کی دہشت گردوں سے متعلق پالیسی پر اعتراض اٹھایا تھا اس کا انتقام بھی حکومت کو فوج کے ایک افسر سے بے عزت کروا کر لیا جا سکے. اس ڈان لیکس کے متانزعہ ٹویٹ کے بعد پاکستان میں عوامی اور سماجی حلقوں کی شدید تنقید اور اس کے بعد عالمی سطح پر جگ ہنسائی کے بعد شاید عسکری ایسٹیبلیشمنٹ کو احساس ہوا کہ اس ٹویٹ نے دراصل سارا دباؤ واپس ان کے ادارے پر ڈال دیا ہے اور بہر حال ایک فوجی افسر کے ملک کے منتخب وزیراعظم کے نوٹیفیکیشن کو مسترد کرنے کے عمل نے ملکی اور بین الاقوامی حلقوں میں عسکری ایسٹیبلیشمنٹ کے حوالے سے کوئی مثبت امیج قائم نہیں کیا.
اس ٹویٹ پر عوامی و سماجی حلقوں کے شدید رد عمل اور بین الاقوامی سطح پر اس کی ناپسندیدگی نے بالآخر عسکری ایسٹیبلیشمنٹ کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا. یوں ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ عسکری ایسٹیبلیشمنٹ کو اپنے موقف سے نہ صرف پیچھے ہٹنا پڑا بلکہ اپنے ہی جاری کردہ ٹویٹ کو واپس لینا پڑ گیا. یہ اپنی نوعیت میں ایک انتہائی اہم پیش رفت ہے اور یقینا یہ عمل ملک میں جمہوریت کی مضبوطی و بالادستی اور آئین پاکستان کی بالادستی کی جانب سفر میں انتہائی اہم سنگ میل ہے. لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قسم کا متناشرین ٹویٹ کرنے کا غیر منطقی فیصلہ کس کا تھا اور جب یہ ٹویٹ واپس لے ہی لیا گیا ہے تو کیا ٹویٹ کرنے والے افسر کی سرزنش بھی کی جائے گی؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس ٹویٹ کو واپس لینے کے بعد ڈی جی آئی ایس پی آر اپنے عہدے سے استعفی دے دیتے یا پھر ادارے کی سطح پر ان کے خلاف کسی کاروائی کا آغاز کیا جاتا.آخر کو اگر عسکری اداروں کے تقدس پامال کرنے کے ناکردہ گناہ کی سزا میں پرویز رشید اور طارق فاطمی کو فارغ کیا جاسکتا ہے تو پھر ملک کے منتخب وزیر اعظم یا جمہوری اداروں کے نوٹیفیکیشن کو مسترد کر کے ملک کی جمہوریت کو مجروح کرنے والے افسر سے استعفی کیوں نہیں لیا جا سکتا؟ پرویز رشید کا جرم اگر خبر نہ رکوا پانا ہے تو میجر جنرل آصف غفور باجوہ کا جرم منتخب وزیر اعظم کے حکم کو مسترد کرنا ہے جو یقینا پاکستان کی پوری دنیا میں سبکی کا باعث بنا ہے. اب جب کہ یہ معاملہ اپنے منطقی انجام تک پہنچ چکا ہے تو عسکری اور سول دونوں قیادتوں کو اپنے اپنے رویوں پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے.
اداروں کی اختیارات کی بالادستی کی جنگ ایک طرح سے وطن کیلیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے جبکہ عسکری اداروں کا جمہوری حکومتوں کے معاملات میں مداخلت کرنا یا خارجہ پالیسی کے محاذ کو اپنے تسلط کرنے کا عمل پھر عسکری اداروں پر بھی تنقید کا باعث بنتا ہے .ایک ایسی فوج جو اس وقت دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں برسر پیکار ہے اس کو تنقید کے بجائے مکمل عوامی حمایت درکار ہے اور امید غالب ہے کہ فوج کے موجودہ سربراہ اس حقیقت کو سمجھتے ہوئے اپنے ادارے کے افسران کو سویلین حکومتوں کے معاملات میں مداخلت سے باز رکھیں گے.ویسے بھی راحیل شریف دور میں خارجہ پالیسی پر مکمل طور پر اجارداری اور ان کے پے درپے غیر ممالک کے دورے سفارتی محاذ پر کچھ خاص طور پر کارگر ثابت نہ ہونے پائے .جس ادارے کے ذمے جو کام ہے اگر اسی کو انجام دینے کی سعی کی جائے تو وطن عزیز کے بہتر مستقبل کیلئے یہ سود مند ثابت ہو گا. ڈان لیکس کا یہ معاملہ ملکی سیاسی تاریخ پر واضح طور پر چند بدنما داغ چھوڑ کر اپنی موت آپ مر چکا ہے.اب ضرورت اس امر کی ہے کہ محب وطنی غداری اور قومی سلامتی کو ٹھیس پہنچانے والی اصطلاحات کا استعمال کر کے ایک دوسرے کو کمزور کرنے کے بجائے مل جل کر اختلاف رائے کو ایک حقیقت قرار دیتے ہوئے مسقبل میں ایسے واقعات اور تنازعات سے بچا جائے.