تحریر : رائو عمران سلیمان جب کسی شخص میں خواہش اور قابلیت یا تجربے میں ہم آہنگی نہ ہوتو وہ شخص قدم قدم پر غلطیاں نہیں کریگا تو پھر کیا کرے گا؟ ۔ ایسا انسان نہ صرف متعلقہ شخص کو نقصان پہنچارہاہوتا ہے بلکہ اس کے عمل سے اس کے قریبی ساتھیوں اورسسٹم کوبھی نقصان پہنچ رہاہوتاہے ۔کچھ یہ ہی حال اس ملک کی بے تاج ملکہ مریم نوازکاہے جن کی خواہش اب روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہیں کہ وہ اپنے والد سابق وزیراعظم نوازشریف کی جگہ پرائم منسٹر بننا چاہتی ہیں غالباً نوازشریف صاحب بھی کچھ ایسا ہی چاہ رہے ہیں اور اس چاہ کے نتیجے میں نواز شریف نے اپنی صاحبزادی کو نواز لیگ اور ملکی اداروں کے بخیے ادھیڑنے کے لیے کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔
نوازشریف کی یہ خواہش ہے کہ ان کی ہر طرح سے ناکامیوں کے بعد “تاج اقتدار” ان کے خانوادے کی اگلی پیڑی کو ہی پہنچے ۔ تاکہ ہر طرح کی بدنامیاں مول لینے کے بعد اب موروثیت کے طریقہ کار کو استحکام پہنچاکر پاکستان کی سب سے مقتدر فیملی ہونے کا اعزاز بھی اپنے ہی نام کرلیا جائے ۔موجودہ وقتوں میں یہ کہنا مناسب ہوگا کہ مریم نواز2018کے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے خود کو تیار کرچکی ہیں تاکہ وزیراعظم بننے کی آخری شرط بھی پوری کردی جائے ،مگر ان کی اس خواہش کی تکمیل انتخابات میں مسلم لیگ کی جیت پر منحصر ہے جو فی الحال دور دور تک دکھائی نہیں دیتی ،کیونکہ سیاسی جھگڑوں کو فروغ دینے والی بے تاج ملکہ اس وقت عوا م میں قابلیت دکھاناتو دور کی بات وہ اپنی ہی جماعت کے پرانے مسلم لیگیوں کی حمایت سے بھی محروم نظر آتی ہیں ۔سیاسی تجربے کی کمی کی وجہ سے مریم نواز کچھ زیادہ ہی جلدبازی سے کام لیتے ہوئے اپنی پارٹی اور اپنے والد کے لیے مشکلات پیدا کررہی ہیں۔
ان کے دماغ پر تین دہائیوں سے اقتدار گھر میں ہونے کے باعث یہ بات بیٹھ چکی ہیں کہ اس ملک کا ہر شہری اور ہر ادارہ اس کے خاندان ہی کی ملکیت اور غلام ہے ، ان کے پاس بظاہر کوئی سرکاری عہدہ نہیں ہے نومبر2013کووزیراعظم یوتھ پرواگرام کی سربراہ مقرر کی گئی مگر جب قائد حزب اختلاف کی جانب سے اس نشست کے خلاف عدالت سے رجوع کیا گیا تب عدالت کے فیصلے کے بعد ایک سال بعد مریم نواز نے اس عہدے سے استعفٰی دیدیا۔مگر وزیراعظم یوتھ سکیم تو کس کھیت کی مولی تھی نواز حکومت میں چلنے والی تمام وزارتیں ہی مریم نوازسے مشورے لیے بغیر کوئی کام نہ کرسکی حتیٰ کے موجودہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی صاحب کے متعلق بھی یہ کہا جارہاہے کہ موصوف چھوٹے سے چھوٹے کام کی تقرری میں بھی یہ ہی فرماتے ہیں کہ “مریم نواز صاحبہ سے پوچھ کر ہاں کرونگا” صورتحال یہ ہے کہ سیاست کے میدان میں مریم نواز کسی کی بھی بات کو سننے کے لیے تیار نہیں ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ انہیں سیاسی میدان میں آہستہ چلنے کا مشوروہ دینے والا دور دور تک دکھائی ہی نہیں دیتا،نوازشریف کے پرانے سینئر ساتھیوں کو انہوںنے اپنے اپنے گھروں میں بٹھادیاہے اور اپنے اردگرد نئے نئے لوگوں کو جمع کرلیاہے جنھوں نے عدلیہ اور فوج کو آئے روز تنقید کا نشانہ بنانے کا مشن اپنے ذمہ لے رکھاہے ،اس وقت مریم نواز کی نواز لیگ میں دہشت کا یہ عالم ہے کہ بڑے بڑے عہدوں پر فائز وزرا ان کے قدموں میں بیٹھ کر ان کی شان میں قصیدے پڑھ رہے ہوتے ہیں اور ان وزیروں کا ایک کام یہ بھی ہے کہ مریم نواز کوئی بھی بات کرے وہ اس کاپرچار ملک کے چینلوں میں باربار کریں ، یہ ہی وہ ادا ہے کہ کسی حکومتی یا پارٹی عہدے کے بغیر ہی مریم نواز موجودہ حکومت کی بے تاج ملکہ بنی ہوئی ہیں۔
موجودہ صورتحال میں مریم نواز نے اپنے والد کی طرح فوج اور عدلیہ پر مسلسل تنقیدوں کا بیڑہ اٹھا رکھاہے جو خود کو جمہوریت کا علمبردار بھی کہتی ہیں لیکن بنیادی طورپر ان کی پالیسیاں ملک میں انتشار کا باعث بنی ہوئی ہیں،اس وقت جہاں وہ فوج سے جھگڑے کے فلسفے کو آگے بڑھا رہی ہیںوہاں وہ پارٹی کے وہ رہنما جن میں شہباز شریف ،چودھری نثار جیسے لوگ ہیں جو اس طرح کی پالیسیوں سے مریم صاحبہ کو گریز کرنا کا مشورہ دے رہے ہیں اور کسی بھی لحاظ سے فوج اور عدلیہ کے خلاف بیان بازیوں کے حق میں نہیں ہیں وہ ان سب کے مشوروں کو ایک طرف رکھتے ہوئے اوران کی پارٹی سے اختلاف رائے کو نظر اندازکرتے ہوئے اپنی متنازعہ پالیسی کو جاری رکھیں ہوئے ہیں۔اس وقت اگر مریم نواز کی جانب سے ملکی اداروں کو نقصان پہنچانے یا کرپشن میں ملوث ہونے کا زکر کیا جائے تو اس میں ہم پہلے ڈان لیکس کا زکر کرلیتے ہیں ڈان لیکس کے معاملے پر مریم نواز سمیت کچھ حکومتی وزرا یہ سمجھتے ہیں کہ یہ معاملہ اب دب چکاہے یا دبایا جاچکاہے ۔مگر فی الحال ایسا کہنا قبل از وقت ہوگا ڈان لیکس کے معاملے میں معمولی عہدوں کی قربانیاں دی گئی ہیں جبکہ یہ قومی سلامتی کا ایک اہم معاملہ تھا جس میں معتبر زرائعو ں کے مطابق مریم نواز براہ راست ملوث تھی جنھیں بچانے میں اس وقت کے وزیرداخلہ چودھری نثار نے اہم کردار ادا کیا۔
جبکہ اب یہ بات ہر کوئی جا ن چکاہے کہ نیوز لیک میںپرویز رشید یا طارق فاطمی کااس قدر ہاتھ نہیںہے یقینا یہ لوگ شریک جرم ہوسکتے ہیں مگر اس سارے اسکینڈل میں مریم نواز کا براہ راست ہاتھ ہے ۔یقینا اگر کسی وقت ڈان لیکس کے معاملے کا تصفیہ پارلیمنٹ میں پہنچا تو یہ راز بھی کھل ہی جائے گا،جس کی امید بھی رکھنی چاہیے کیونکہ جہاں بڑے بڑے کیسوں کو دوبارہ کھولا جارہاہے وہاں ڈان لیکس کا معاملہ کسی بھی وقت سامنے آسکتاہے جس میں ہتھکڑیاں کس کس کو لگے گی وہ قوم خود ہی دیکھ لے گی فی الحا ل ہتھکڑیاں لگنے کی کڑی کسی ایک مرحلے میں نہیں آتی اس ملک میں جس قدر لوٹ کھسوٹ ہوئی ہیں اگر ان کی تفصیلات کو دیکھا جائے تو شریف خاندان اور مریم نواز پر درجنوں مقدمات مزید لگ سکتے ہیں ۔مریم نواز کی بی ایم ڈبلیو کار جو انہیں متحدہ عرب امارات سے تحفے میں ملی تھی انہوںنے ٹیکسوں کے گواشوارے میں اس گاڑی کی قیمت پینتیس لاکھ ظاہر کی جبکہ کئی سال استعمال کرنے کے باوجود دوہزار گیارہ میں انہوںنے یہ ہی گاڑی دو کروڑ کے قریب تر بیچ ڈالی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی امیر آدمی نے ان سے گاڑی کو خریدا نہیں بلکہ انہیں نذرانہ پیش کیا ہے،اس کے علاوہ نواز حکومت کے ان چارسالو ں میں کروڑوں مالیت کے اس قدر تحفے ملے تھے کہ جو کسی بھی شخص کو ارب پتی بنانے کے کے لیے کافی ہیں۔
مگر مریم نواز کے مطابق وہ صرف ایک ارب کے اثاثوں کی ہی مالک ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے ،جے آئی ٹی کی رپورٹ کے مطابق چوہدری شوگر مل میں مریم نواز کے بارہ لاکھ سے زائد کے شیئر ہیں،جبکہ وہ حدیبیہ مل میں بھی چار لاکھ چوبیس ہزار چارسوشیئر کی مالکہ ہیں۔جے آئی ٹی رپورٹ میں لندن میں کروڑوں ڈالر کے فلیٹ کی ملکیت بھی مریم نوازکی ثابت ہوچکی ہیں۔بیرون ملک کمپنیوں کا حساب تو اس کے علاوہ ہے جس کی آمدنی کا اگر زکر کیا جائے تو ناقابل یقین اثاثے سامنے آتے ہیں۔قوم نے دیکھا کہ جس انداز میں کروڑوں ڈالر کے اثاثے مریم نواز کے بڑھے اسی انداز میں ان کے خاوند کیپٹن(ر) صفدر نے بھی خوب ترقی کی ہے،مریم نواز نے جو ایک ارب کی ملکیت کا دعویٰ کیا ہے اس سے زائد اثاثے تو ان کے چمچوں نے ہی بنالیے ہیں بی بی مریم تو پھر بے تاج ملکہ ٹھری نا۔ ختم شد