بلین ٹری سونامی کا فنکشن تھا شام ہو گئی جناح کنونشن سے ہم باہر نکلے تو ایک بڑے بندے سے ملاقات ہو گئی بڑا اس لیا کہ وہ پھیچھ سے پھلانگتا ہوا ؤیا اور چھا گیا۔میں نے کہا جناب ہزارہ کا کیا بنے گاْاب تو فاٹا کا انضمام بھی ہو رہا ہے موصوف کا جواب تھا جی ہزارہ ہیں ووٹ تھوڑا ہی دیتا ہے۔جی تو کیا کہ اس کو بے نقط سنائوں مگر چپ کر گیا پھر الیکشن ہوا ہزارہ میں پی ٹی آئی کے ہی لوگوں کی ہزار کوششوں کے باوجود پارٹی جیت گئی۔پھر سو دن کی میٹینگ میں سوال وہی تھا کہنے لگے سوچا جائے گا میرا کہنا تھا ہمارے بچے اب بھی اٹک پار اجنبی ہیں فاٹا کے انضمام کے بعد تو مزید اقلیت میں ہوں گے۔
ہزارہ صوبہ کی تحریک بابا حیدر زمان کے ساتھ ہی قبر میں دفن ہوتی نظر آتی ہے اس لئے کہ مجھے پورے ہزارہ میں ایسا کوئی مرد جری نہیں نظر آتا جو جو بابا کا نعم البدل ہو۔آپ جھاری کس سے کاغان تک کی لیڈر شپ دیکھ لیں یہ مدح سرائوں کا ایک ٹولہ ہے جو نواز شریف یا کسی اور شریف کا جھولی چک تو ہے اپنی کوئی شناخت نہیں۔
لوگ ایسے ہی نہیں الگ ملک،صوبہ مانگتے ،اس لئے کہ جب ان کی کوئی سنتا نہیں تو شور تو اٹھے گا۔ہزارہ صوبہ کی تحریک تو خون بھی دے چکی اے این پی کے دور میں ١٢ اپریل کے خونیں دن کو کوئی نہیں بھول سکتا۔اس تحریک سے الگ ہونے والے مختلف پارٹیوں میں مزے لوٹ رہے ہیں۔اور صوبہ ہزارہ ادھر کا ادھر ہی ہے۔سردار حیدرزمان جو اب اس دنیا میں نہیں ہے ان کا تخت خالی ہونے کے بعد لگتا ہے مدتوں خالی ہی رہے گا۔جو قیدی لاہور کے تھے ان کو تو صوبہ مل جائے گا جن کی پشتیبانی ضیاء شاہد جیسے لوگ کر رہے ہوں مجھے دکھائی دیتا ہے جنوبی پنجاب کو شناخت مل ہی جائے گی۔وسیب سے عثمان بزدار ان استعماری قووتوں کے لئے پیغام ہے جو ہر اچھی چیز کو اپنا نصیب سمجھ کر ہڑپ کر لیتے تھے ۔شائد یہی وجہ ہے کہ عمران خان کو دو ماہ میں چار مرتبہ لاہور آ کر بتانا پڑا کہ سورج اب ادھر سے نکلے گا جو برس ہا برس دبے رہے۔ مگر ہمارے لیڈروں کو چھوٹی موٹی گوگی مل جائے تو ڈکار مارتے نظر آتے ہیں۔
روشنیوں کے شہر اسلام آباد کے سر پر بھی روشنیاں راج کرتی ہیں۔چراغ تلے اندھیرا تو آپ نے سن ہی رکھا ہو گا اگر نہیں تو میں آپ کو دکھائے دیتا ہوں ۔پیر سوہاوہ ٹاپ کے پیچھے ایک نگر آباد ہے جہاں کے لوگوں کو رات گئے اسلام آباد کی روشنیاں تو نظر آتی ہیں مگر وہ خود اس سے مستفید نہیں ہیں ۔یہ علاقہ ہری پور میں واقعہ ہے جہاں سے ہری پور پہنچنے کے لئے دو گھنٹے لگتے ہیں اور اسلام آباد کے پچھواڑے کے لوگ کیپیٹل میں ایک گھنٹے میں پہنچ جاتے ہیں۔ایک سڑک جو ایوب دور میں شروع ہوئی تھی وہ چند سال پہلے ہی پایہ تکمیل تک پہنچی ہے۔وہاں تک پہنچی ہے جہاں تک اسلام آباد ہے تھانہ مکھنیال میں داخل ہوں تو لگتا یوں ہے کہ موئنجو دڑو کے زمانے میں اپنی گاڑی اس وقت کی بیل گاڑی بن گئی ہے۔بابل فلم دیکھئے نرگس کی ڈولی اسی میں اٹھی تھی۔
بجلی کا میں نے ذکر کیا ہے وہ اب ہے تو سہی مگر سرگی کے تارے کی مانند ہے جس طرح یہاں کے لوگ اس سے لئو مانگتے رہتے ہیں ایسے ہی بجلی کو بھی ساکنان علاقہ ترس جاتے ہیں۔دم آیا آیا نہ آیا۔ دو روز پہلے جبری میں ایک شادی پر وزیر توانائی جو نقشہ کھینچ رہے تھے اس سے امید کی کرن پیدا ہو گئی ہے۔دیکھیں کیا ہوتا ہے۔اس علاقے کی ساری سیٹیں ترینوں کے پاس ہیں اگر بدل دیا تو ٹھیک وگرنہ یہاں کے لوگوں کا کیا پہلے بھی اندھیروں میں رہے اب بھی رہ لیں گے۔آپ میری یہ بات جان کر حیران ہوں گے کہ اس علاقے میں کوئی کالج نہیں ہے ،کوئی ٹیکنیکل ادارہ نہیں ہے یہاں کے لوگوں کا ذریعہ معاش اسلام آباد میں آ کر چھوٹی موٹی مزدوری کرنا فوج کی ملازمت اور اب کچھ عرصہ سے خلیج کی ریاستوں اور سعودی عرب میں محنت مزدوری کر کے گھر کا چولہا جلانا۔ان کی اس بد قسمتی کی ذمہ داری اس علاقے کی قیادت پر ڈالتے ہوئے مجھے کوئی باک محسوس نہیں ہوتا یہاں راجہ سکندر زمان ایک عرصہ تک بے تاج بادشاہ رہے ان کے پاس گورنری وزارت اعلی پانی بجلی کی وزارت رہی۔سینئر منسٹر بھی رہے ۔لیکن افسوس کہ وہ اس پورے علاقے کی تقدیر بدلنا تو کیاان کی شب تاریک تو سیاہ تر کرتے رہے۔یہی بد قسمتی ان لاکھوں لوگوں کے مقدر میں لکھی رہی۔ہری پور کہ اس پسماندہ ترین علاقے کی قسمت آج بھی راہنما کی منتظر ہے جو اس علاقے کے مقدر جگا سکے۔
آپ حیران ہوں گے اس خوبصورت وادی جسے ہرو ندی نے چار چاند لگا رکھے ہیں جبری پل سے لے کر خانپور ڈیم تک جو ١٥ کلو میٹر کا فاصلہ ہے اس پر کوئی اور پل نہیں۔بارش میں ندی کے اس پار کے لوگ ادھر نہیں آ سکتے اور ادھر کے ادھر نہیں جا سکتے۔یہ ندی ہر سال چند حرماں نصیبوں کی جان لیتی ہے۔خانپور ڈیم جو اپنے پانیوں سے میدان پنج کٹھہ سے لال سرخ مالٹے پیدا کرتا ہے مجھے لگتا ہے بھاٹی ببھوتری بوکنہ اور دیگر دیہات کے ان لوگوں کے خون کی سرخی ریڈ بلڈ مالٹوں میں منتقل ہو جاتی ہے۔اس علاقے کے لوگ مریضوں کو چارپائیوں پر لاد کر خانپور یا لورہ ہسپتالوں میں لے کر جاتے ہیں۔بہت سوں نے راجائوں کے اس دیس میں جہاں کبھی کبھی ترین بھی اقتتدار کا مزہ لوٹتے ہیں بلکہ اب تو قومی اور صوبائی کی سیٹیں ایک ہی گھر میں ہیں ہیں یہاں مختیار گجر اور بیدار شاہ نے انقلاب لانے کی کوشش کی مگر پہاڑ جیسے مسائل جو قیام پاکستان کے وقت کے تھے انہیں حل کرنا ان کے بس کی بات نہیں تھی۔
یہ لوگ ایک آواز تو دے گئے مگر ایک نئی امید جو عمران خان نے دکھائی اس کے نام پر ایک بار پھر اسی عطار کے لونڈے سے دوا مانگنے پہنچے ہیں جن کے سبب بیماری بختوں میں ملی۔مائوں کے بچے صرف دو وقت کی روٹی کے لئے پنڈی اسلام آباد سے کراچی تک تلاش رزق کے لئے ہی نہیں گئے دنیا کے کونے کونے میں پہنچے مجھے ٢٠٠٤ میں ملائیشیا جانے کا اتفاق ہوا وہاں جنگ عظیم دوم کے شہداء کی ایک یاد گار پر جانے کا موقع ملا میں نے دیکھا کالا خان میرداد اور اس قسم کے ناموں سے مزین تختی مجھے پکار پکار کہہ رہی تھی روٹی کے متلاشی تمہارے ہی گرائیں تھے۔اب بھی فوج میں اس علاقے کے جوانوں کی بڑی تعداد ہے آئے ان دیہات کے بچوں کی لاشیں آتی ہیں جو کبھی کراچی میں کسی لسانیت پرست کی بوری میں بند ہوتا ہے یا سیاہ چین وانا وزیرستان میں کام آتا ہے۔میں تو اس حکومت کے ساتھ ساتھ جنرل باجوہ سے بھی مطالبہ کرتا ہوں شہداء کی اس دھرتی پر سڑکیں ہسپتال تعلیم ادارے بنائے جائیں۔یہاں ریڈ بلڈ مالٹے ہی نہیں لال سرخ خون دینے والوں کی کمی نہیں ہے۔فاٹا بلوچستان کی طرح فوج یہاں ہسپتال اور ٹیکنیکل ادارے بنائے۔پی ٹی آئی کی حکومت ہوا کا ایک تازہ جھونکا ہے۔لیکن لوگ چاہتے ہیں اس علاقے میں صوابی نوشہرہ اور پشاور جتنے فنڈ خرچ کئے جائیں۔ پشاوری حکمران اٹک کے اس پار بھی دیکھ لیا کریں خاص طور پر پے کے اکتالیس کی یہ پہاڑی یونین کونسلیں آپ کی توجہ چاہتی ہیںاس علاقے کو سیاحتی علاقہ بنایا جائے۔میں اپنے دوست یوسف ایوب سے بھی گزارش کروں گا کہ الیکشن کے دنوں میں کئے گئے وعدے پورے کریں ۔لوگوں نے خونی رشتے بالائے طاق رکھ کر بلے کو ووٹ دیا ہے اس نشان کی لاج رکھیں۔
نیلاں بھوتوکوہالہ درکوٹ جبری نلہ جنڈی ببھوتری اور اپر خانپور انصاف مانگتا ہے۔جبری بنگلہ سے نجف پور روڈ کو اگر نہ بنایا گیا تو اس علاقے کے ساتھ بڑا ظلم ہو گا۔ترناوہ کوہالہ روڈ کی حالت کسی بیوہ کی اجڑی ہوئی مانگ سے کم نہیں۔پتہ نہیں لوگوں کو اسلام آباد سے موئن جو دڑو کیوں لے جایا جاتا ہے انہیں اس سڑک کی زیارت کرا دی جائے تو مقصد پورا ہو جائے گا۔اس اندھیر نگری پر کیا لکھوں بس اتنا لکھے دیتا ہوں کہ حق دار را حق رسید ہونا چاہئے اگر تحریک انصاف لوگوں کو انصاف نہ دے سکی تو یاد رکھئے ہزارہ کے دیگر علاقوں کا تو پتہ نہیں اس علاقے سے ایک بار سخت شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مسند اقتتدار پر بیٹھے لوگوں کو کو اس دنیا میں جواب تو دینا ہی ہو گا آخرت میں بھی پوچھے جائیں گے۔ کسی نے ہزارے وال سے پوچھا کہ آپ کے ہاں کون سی فصل ہوتی ہے جواب دیا شہداء کی۔یہاں دوسری جنگ عظیم سے لے کر پینسٹھ اکہتر کارگل،وانا،سوات،کراچی کے شہید پائے جاتے ہیں یہاں فصلیں اگتی ہیں لیکن ان کو کبھی بوری میں بند کبھی لکڑی کے بند بکسے میں لایا جاتا ہے۔
وطن کے لئے قربانی دینا ہمارا اعزاز ہے لیکن یہاں ہسپتال، اسکول، کالج،سڑکیں ہونا بھی ضروری ہے۔ایک ہزارے وال ہونے کے ناطے میرا دکھ کسی دوسرے سے مختلف نہیں ہے۔ہمارے سانجے دکھ مدتوں دکھ ہی رہیں گے۔ہزارہ دیس اگر ہزارے والوں کو نہیں ملتا۔تو ہماری نسلوں کے نصیبوں میں کراچی،گجرانوالہ،پنڈی کے قبرستان ہوں گے۔میں دو روز پہلے اپنے ماموں زاد کو بکسے میں دیکھ کر آیا ہوں جس نے تیس سال کراچی میں گزارے اور مرتے وات کہا مجھے مجھے موضع لسن جو یو سی لنگڑیال میں ہے لے جائو وہاں سونا چاہتا ہوں۔ہزارہ تو خوبصورت تو بہت ہے مگر تیرے بیٹے کم ہی واپس آتے ہیں۔میں نے اپوزیشن میں بھی رہ کر واویلا کیا اب تو حکومت ہی اپنی ہے بات عالم لوہار والی ہے واجاں ماریاں بلایا کئی وار وے کسے نے میری گل نہ سنی