تحریر : محمد اشفاق راجا تاریخ کا سبق یہ ہے کہ کوئی بھی تاریخ سے سبق نہیں حاصل کرتا کہتے تو سب ہیں لیکن عمل کا معاملہ ہو تو کوئی بھی پورا نہیں اترتا، آج کا دور سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کے لئے بہت مشکل دور ہے جسے محاذ آرائی کی نذر کیا جا رہا ہے اور اب تو یوں محسوس ہونے لگا ہے کہ سکرپٹ کے مطابق سیاست دان از خود عمل کرتے چلے جا رہے ہیں بساط بچھی ضرور لیکن مہرے تو خود چلنا شروع ہو گئے ہیں، سیاست دانوں کے لئے بہتر عمل تو یہ تھا کہ وہ از خود ایک وسیع تر قومی ایجنڈے پر متفق اور متحد ہو جاتے اور ملک میں ایک ایسا عمل شروع ہو جاتا جس میں ہر ایک کی شکایت کو وزن دے کر اسے دور کرنے کی کوشش کی جاتی ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر قربان کر دیا جاتا۔
آج جو احتساب کا شور اور ہنگامہ ہے تو سیاسی قائدین کو کس نے روکا تھا کہ وہ احتساب کے نظام پر مکمل اتفاق رائے پیدا کرتے اور یہ عمل غیر جانبدارانہ طور پر شروع ہو جاتا اور اپنے پرائے کی تمیز نہ رہتی۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا، ان حضرات کی کم فہمی پر رونا آتا ہے جو انتخابی اصلاحات سے احتسابی نظام تک کے قانونی عمل کو آسان لے کر ٹالتے چلے گئے اور آج پاناما لیکس کے حوالے سے احتساب کا جو مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے اسے زیر غور ہی نہیں لائے تھے۔
زمانہ ترقی کرتا ہے اس کے ساتھ کرپشن بھی اوپر جاتی ہے۔ کبھی بات ہزاروں پھر لاکھوں تک آئی۔ لیکن اب تو نوبت یہ ہے کہ جہاں ہاتھ ڈالا جائے معاملہ اربوں، کھربوں کا ہوتا ہے اب تو کروڑ دو کروڑ روپے بھی کوئی شے نہیں اس سے بڑی کرپشن تو سرکاری محکموں کے اہل کار بھائی کر لیتے ہیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ جو نہ کرے وہ ”کلنک” ہے کرنے والے پارسا بنے ہوئے ہیں۔ ایسے میں خود احتسابی کا عمل شروع کیا جاتا تو جماعت اسلامی یا تحریک انصاف کو کرپشن کے نام پر تحریک چلانے کی ضرورت کیوں پیش آتی۔
Parliament
اس وقت بھی احتساب بل قومی اسمبلی کی مجلس قائمہ میں زیر التوا ہے پہلے تو اس کی منظوری کو ٹالاجاتا رہا ہے لیکن اب اس کی منظوری شاید عملاً ممکن نہ ہو کہ پارلیمینٹ میں موجود تحریک انصاف پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے رویئے میں تبدیلی آ چکی ہے۔ اس لئے اگر اس بل پر کمیٹی میں غور ہوا تو شاید اتفاق رائے نہ ہو پائے بلکہ ہمیں تو یہ خدشہ ہے کہ کمیٹی کا اجلاس ہی نہ ہو سکے گا۔اس احتساب بل کی کہانی بھی درد ناک ہے یہ بل سابقہ حکومت (پیپلزپارٹی) کے دور میں پیش ہو کر مجلس قائمہ کے سپرد ہوا۔ تب ایک بات پر اختلاف تھا کہ احتسابی ادارے کا سربراہ حاضر سروس جج کی بجائے ایسا سویلین بھی ہو سکتا ہے جو سپریم کورٹ کے جج جیسی اہلیت کا حامی ہو۔ مسلم لیگ (ن) کو اس پر اعتراض تھا اس کے مطابق سربراہی سپریم کورٹ کے حاضر سروس جج کے پاس ہونا چاہئے۔
یہ ایک مرکزی اختلاف تھا جو خود مختار، آزاد اور با اختیار احتساب بیورو کے قیام کی راہ میں حائل ہوا۔ مرکزی اختلاف تو یہی تھا باقی معمولی نوعیت کے تھے۔ یہ بل لٹکتا چلا گیا۔ اب مسلم لیگ (ن) کے دور میں بھی زیر التوا ہے۔ ایک یا دوبار مجلس قائمہ کے ایجنڈے پر تھا لیکن عدم دلچسپی کے باعث پھر التوا میں چلا گیا۔ مسلم لیگ (ن) اب اپنی رائے کے مطابق بل میں ترمیم پیش کر سکتی تھی۔ لیکن توجہ نہیں دی گئی۔ اب تو احتساب اور کرپشن کے خاتمے کا اتنا شور اور ہنگامہ ہو گیا ہے کہ شاید ہی یہ مسودہ بل بن کر قومی اسمبلی میں آ سکے، لیکن یہ ممکن نہیں کہ احتساب کا عمل نہ ہو، یہ تو اب ہوگا۔ دلچسپ امر تو یہ ہے کہ آج کے دور میں سید خورشید شاہ اور بلاول بھٹو بھی احتساب کے حق میں ہیں۔ باوجود یکہ ان کی اپنی جماعت کے کئی مہربان کرپشن کے ریفرنسوں میں ملوث ہیں ایسے میں ان ہر دو رہنماؤں کی حمایت بہت معنی خیز ہے کہ کرپشن کے الزام تو سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف بھی لگائے جا رہے ہیں۔
اتوار کو ملک میں جو سین بنا، اور اس کے دوران تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے باقاعدہ کرپشن مخالف تحریک چلانے کا اعلان کر دیا ہے۔ جماعت اسلامی یکم مئی سے شروع کرے گی جبکہ تحریک انصاف تو آج ہی سے سرگرم عمل ہونے والی ہے۔تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنی جماعت کے یوم تاسیس پر تقریر کرتے ہوئے کھل کر کرپشن کے خلاف باقاعدہ مہم چلانے کا اعلان کر دیا جس کا آغاز وہ آج (منگل) سندھ سے کر رہے ہیں۔ مولابخش چانڈیونے طنزیہ انداز میں خوش آمدید کہا بہر حال تحریک انصاف اور عمران خان ایسی تحریک کا اعلان کر چکے تو آنے والے حالات کا اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایک بڑے سکرپٹ کا حصہ ہے جس کے مطابق مسلم لیگ، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم سمیت سیاسی جماعتوں کو “CUT TO SIZE” کے مطابق رہنا ہوگا اور ان میں سے کرپٹ اور ملک دشمنی والے سزا پائیں گے؟۔سیاسی راہنماؤں کو سوچنا ہوگا وہ سید خورشید شاہ سے راہنمائی لیں جو شاید بھانپ چکے کہ سکرپٹ کیا ہے۔