تحریر : شیخ خالد زاہد نقل کے لغوی معنی ہیں “دیکھ کر لکھنا” مگر کہاں دیکھ کر لکھنا ہے اور کہاں بغیر دیکھے لکھنا ہے، یہ وقت اور موقع کی مناسبت سے طے پاتا ہے۔ جب بچوں کا املا درست کروانا ہو یا لکھائی میں بہتری لانی ہو تو ان سے دیکھ کر لکھنے کا کہا جاتا ہے اور جب بچہ کسی امتحان میں شریک ہوتا ہے تو اسے بغیر دیکھے لکھنے کی صلاحیت کو بروئے کار لانا ہوتا ہے یعنی کہ جو وہ امتحان کہ حوالے سے یاد کر کے آیا ہوتا ہے اس کو تحریر کرنا ہوتا ہے۔ ہماری ساری زندگی امتحانات سے بھرپور ہے پڑھایا کچھ جاتا ہے امتحان میں کچھ آتا ہے اور ہم لکھ کر کچھ آجاتے ہیں، نتیجہ بہت کم کم ہی اچھا آتا ہے کیوں کہ ہم پہلے سے بتائے گئے یا سکھائے گئے طریقے سے ملتا جلتا امتحان نہیں دے کر آتے۔
ہمارا ملک اور ہم لوگ ہر معاملے پر منقسم ہیں، ہمارا تعلیمی نظام بھی اس تقسیم اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہا ہے، نظامِ تعلیم تقریباً ہر صوبے کا مختلف ہے اور پھرصوبوں کے اندر مختلف بوڑد بنا کر تقسیم کر دیا گیا ہے اور پھر وفاقی نظامِ تعلیم الگ ہے، عسکری نظام تعلیم کہ تو کیا ہی کہنے۔ معاشرتی تقسیم تو ہمارے معاشرے کا خاصہ ہے اس تقسیم کی بنیا پر ہمارا تعلیمی معیار بھی حیثیت اور منصب کی بنیاد پر قائم ہوا ہے، اب کوئی مانے یا نا مانے ایسا ہی ہے۔ گمان کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ دنیا کے کسی اور خطے میں تعلیم کا یہ حشر نہیں ہوتا ہوگا۔ یا تو تعلیم دو یا ایسے نا دو۔ ہمارے بچے جو رہتے تو ایک ہی معاشرے میں ہیں مگر تعلیم مختلف نظاموں سے لیتے ہیں اور ان نظاموں میں موجود مختلف اقدار کی وجہ سے ذہنی طور پر تقسیم ہوجاتے ہیں۔ ہر سطح پر طبقاتی نظام کی پرورش کی جا رہی ہے۔ یہ طبقاتی تقسیم بھی شدت پسندی کی ایک اہم ترین وجہ ہے۔ شائد ہی دنیا میں کوئی والدین ایسے ہوں جو یہ نہیں چاہتے کہ ان کا بچہ پڑھ لکھ کر ایک کامیاب انسان بنے، یہ والدین کا وہ خواب ہوتا ہے جو بچے کی پیدائش سے قبل ہی والدین کی آنکھوں میں چمکنے لگتا ہے۔ مگر وقت اور حالات آنے والے وقت کا فیصلہ اپنے ہاتھوں میں لے لیتا ہے اور وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے۔
نقل کا رجحان ہمارے معاشرے میں خصوصی طور پر صوبہ سندھ میں کسی ناسور کی صورت اختیار کیا جا چکا ہے اور ناسور کا علاج آپریشن ہوا کرتا ہے یعنی اب ہمیں نقل کرنے والے طالبِ علموں کو یہ باور کرانا پڑے گا کہ اس نقل کے نتائج اچھے نہیں آنے والے یعنی اگر آپ نقل کرتے ہوئے پکڑے گئے تو کوئی ایسی سزا تجویز کی جائے کہ وہ سارا سال پڑھے مگر امتحان میں شرکت نا کرنے دی جائے۔ مثبت تبدیلی کیلئے مثبت اور احسن اقدامات ہی کرنے پڑینگے۔ والدین اپنا کردار ادا کریں اور بچوں کو بچپن سے ہی اس بات کی تلقین کریں کہ نقل کرنا ایک موذی مرض ہے اور یہ کسی گناہ سے کم نہیں ہے کیوں کہ آپ اپنے اساتذہ سے تو چھپا سکتے ہو مگر اللہ تعالی تو ہر وقت ہم سب پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ہم سب ایک سمت میں اپنی قوت صرف کریں تو کوئی بھاری سے بھاری چیز ہلے بغیر نہیں رہ سکتی۔ بس فیصلہ یہ کرنا ہے کہ ہم اپنی اولاد کے کسی بھی ایسے فعل کی حوصلہ افزائی نہیں کرینگے جو مستقبل میں اسکے لئے اور معاشرے کیلئے نقصان دہ ثابت ہو۔ طبقاتی نظام سے بھی ہمیں آزادی چاہئے اصل تبدیلی اس طبقاتی نظام سے باہر ہماری منتظر ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم کب اس نظام کو اپنے پیروں تلے روندتے ہیں اور نقل جیسی بیماریوں سے چھٹکارا پاتے ہیں۔ ہم سب اس نقل مافیہ کا حصہ ہیں۔ کوئی شک نہیں اچھا وقت ہمارا انتظار کر رہا ہے۔