اسلام میں تصور یادگار

Islam,

Islam,

اسلام ایک ایسا مذ ہب ہے جس میں سب یادگار ہی یادگار ہیں اگر ان یادگار کو چھوڑدیا جائے تو یقینا اسلام کے بنیادی عقائد بھی باقی نہیں بچیں گے آ ئیں آج اس موضوع کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں انسان پہ سب سے پہلا فرض نماز ہے جس کے متعلق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ” الصلوة عماد الدین”ترجمہ کہ نماز دین کا ستون ہے مگر اس دین کے ستون میں غور کرو کہ اسمیںکتناتفاوت و تباین ہیکہ صبح کی نماز کی دو رکعتیں پھر ظہر و عصر کی چار چار پھر مغرب کی تین پھر عشاء کی چار ۔ان میں کتنا فرق ہے حالانکہ نمازیں سب اللہ تبارک و تعالی کی ہیں مگر انکی تعداد رکعت مختلف کیوں ہیں اگر اس ایک نقطے کو ہی سمجھ لیا جائے تو یقینا ہمارے تمام ان وساوس کا ازالہ ہو جائے گا جنکو ہمارے اذہان میں راسخ کرنے کی کوشش کرواتا ہیکہ اسلام میں یادگار کا کوئی تصور ہی نہیںاسمیں ایک خاص نقطہ ہے وہ یہ کہ انکا وقوع مختلف مواقع پہ ہوا جسکو اللہ تبارک و تعالی نے بطور یادگارکے مسلمہ امہ پہ فرض قرار دیا ۔نماز فجر جب حضرت آدم علیہ السلام کو رات کو زمین پہ اتارا گیا تو اس وقت تاریکی اپنے جو بن پہ تھی یہاں تک کہ ہاتھ کو ہاتھ تک نظر نہیں آ تا تھا توآپکو اس ظلمت شب سے وحشت ہونے لگی مگر پھر آہستہ آہستہ اللہ تبارک و تعالی نے اس تاریکی کو کافور کرنا شروع کیا اور دن کو طلوع کیا جب حضرت آدم علیہ السلام نے اس ضوء صبح کو دیکھا تو آپ نے دو رکعت نماز ادا کی ایک تو شب کا اندہیرا کا فور ہونے کی اور دوسری روشنی کے طلوع ہونے کی وہ دو رکعتیں رب کو اتنی پسند آئیں کہ اللہ تبارک و تعالی نے انکو امت مسلمہ پہ بصورت فجر دو رکعتیں فرض کر دی۔

وجہ صلوة ظہر کی رکعات اربعہ ۔یہ جو امت مسلمہ ظہر کی چار رکعت ادا کرتی ہے اسکی اصل یہ ہیکہ سب سے پہلے یہ چار رکعت حضرت ابراہیم علیہ السلامنے اس وقت ادا کی جب اللہ تبارک و تعالی نے انکو امتحان میں کامیاب کیا اور آ پ نے چار رکعات ادا کی پہلی رکعت تو اس لئے کہ اللہ تبارک و تعالی نے آپکو امتحان میں کامیاب کیا دوسری اس وجہ سے کہ اللہ تبارک و تعالی نے حضرت اسماعیل کو بچا کہ انکی جگہ مینڈے کو جنت سے اتارا تیسری اس وجہ سے کہ جب حضرت ابراہیم اپنی اس قربانی سے فراغت پائی تو اللہ تبارک و تعالی نے براے راست خطاب فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ”ہم نے ند دی کہ اے ابراہیم تم نے اپنا وعدہ سچا کر دیکھایا”(القران)اس خطاب خدا وندی کی خوشی میں چوتھی رکعت کی ادائیگی اس وجہ سے کی کہ انکو چھوٹی عمر میں ہی دور ویرانے میں چھوڑ گئے تھے مگر جب انکو حکم خدا وندی دیا گیا تو آ پ نے اپنے والد سے عرض کی کہ ”آپ کیجئے جو آپ کو حکم ہے انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والا پائے گے”(القران)اس بات پہ کہ بیٹے نے اس بات کو سر خم تسلیم کیا یا چار رکعتیں رب کو اتنی پسند آئی کہ اللہ تبارک و تعالی نے انکو نماز ظہر کی صورت میں امت مسلمہ پہ فرض کر دیا۔نماز عصر۔یہ چار رکعتیں سب سے پہلے حضرت یونس علیہ السلام نے ادا کی جب آپ مچھلی کے پیٹ سے باہر تشریف لائے تو آپکو اللہ تبارک و تعالی نے چار اندھیروں سے نجات عطاکی تھی ایک پانی کا اندہیرا ایک مچھلی کے پیٹ کا اندہیر اور ایک رات کا اندہیر جب صبح طلوع ہوئی تو آپ نے ان چار اندہیروںکے کافور ہونے پہ چار رکعت نماز ادا کی وہ اللہ تبارک و تعالی کو انکا خلوص پسند آیا کہ اللہ تعالی نے وہ چار رکعت امت مسلمہ میں بصورت عصر فرض کر دی۔

Praying Maghrib

Praying Maghrib

نماز مغرب ۔اللہ کے نبی حضرت داود علیہ السلام نے بارگاہ ایزدی میں چار رکعت نماز کی نیت کی تو آپ تجلیات ربانیہ میں اس طرح محو ہو ئے کہ تعداد رکعت کا خیال ہی ذہن سے نکل گیا اور آپ نے چار کے بجائے تین ہی پہ اپنی صلوة کو مکمل کر لیا پھر خیال آیا کہ میں نے تین پڑھی ہیں مگر وہ رب کو ایسی پسند آئی کہ اللہ نے امت مسلمہ پہ بصورت مغرب فرض کر دی ۔اس ہی طرح نماز عشاء حضور ۖ کی یاد میں فرض کی گئی یا موسی علیہ السلام کی یادمیں ۔اسی طرح قربانی ایک بہت ہی اہم فریضہ ہے اسلام نے ہر صاحب نصاب پہ اسکو فرض قرار دایا ہے مگر یہ بھی کسی کی یاد میں ہے جیساکہ اس دن اللہ کے جلیل القدر نبی حضرت ابراہیم نے اپنے لخت جگر کو اللہ کی راہ میںقربانی کے ل ئے پیش کیا رب کو وہ قربانی اتنی پسند آئی کہ رب نے ہر صاحب نصاب مسلمان پہ فرض کر دی ۔اسی طرح اس کے علاوہ ٍایک اہم فریضہ حج اہے جو کہ اسلام میں سب سے مشکل کام عبادت ہے کیونکہ اس میں مالی بدنی دونوں عبادتوں کا م کا مجموعہ ہے مگر اس کے تمام احکام بھی دیکھیں تو وہ بھی کسی نہ کسی اللہ کے برگزیدہ بندے کی یادمیں ہی ہیں۔

مثال کے طور پہ آپ دیکھیں کہ وہاں پہ دو پہاڑیاں ہیں صفا و مروہ ۔ہر حج کرنے ولا ان پہ سات چکر لگاتاہے ۔اب ان چکروں کی کیا حقیقت ہے اس کے متعلق بھی سنیئے جب حضرت ابرہیم علیہ السلام اپنے صاحبزادے کو لیکر ذبح کرنے چلے تو شیطان آیا آپ علیہ السلام نے ملعون کو کنکریاں ماری جاتی ہے یہ بھی حضرت ابرہیم کی سنت ہے کہ آپ نے علیہ السلام کی سنت ہیں کیونکہ انہوں نے شیطان کو ماری لہذا جس دن اللہ کی کوئی نعمت ملے وہ یادگار ہے اور اس کو منانے کا حکم اس لئے قران و حدیث میں موجود ہے اس لئے تمام مسلمان ربیع الاول میں میلاد مصطفی ۖ مناتے ہیں۔

Mamoon Rashid

Mamoon Rashid

مفتی مامون الرشید قادری

03022341334
E-mail: pslpak92@gmail.com