کورونا وبا کے دوران بھی اسلحے کی دوڑ بدستور جاری رہی

Weapons

Weapons

فرینکفرٹ (اصل میڈیا ڈیسک) سپری کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی ہتھیار سازی کی ایک سو بڑی کمپنیوں نے پانچ سو اکتیس بلین ڈالر کا اسلحہ فروخت کیا ہے۔ سن 2020 کے دوران کورونا وبا میں عالمی معیشت کو متاثر کیا لیکن ہتھیاروں کی فروخت میں رکاوٹ پیدا نہیں ہوئی۔

سن 2020 کے دوران دنیا بھر کے ملکوں میں کورونا وبا کے دوران لاک ڈاؤن کی وجہ سے اشیا کی طلب میں کمی واقع ہوئی اور صارفین میں بیزاری و پریشانی کا عنصر نمایاں رہا۔ کووڈ انیس کی بیماری نے دنیا بھر میں معشیت کو شدید کمزور کیا اور عالمی اقتصادی صورت حال میں گراوٹ دیکھی گئی۔

ان تمام مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود ایک ایسا بھی شعبہ ہے جس میں کاروبار پھیلتا پھولتا رہا۔ یہ شعبہ ہتھیار سازی اور اس کی فروخت کا شعبہ ہے۔ اس شعبے سے وابستہ دنیا کی ایک سو بڑی کمپنیوں کو اربوں ڈالر کا فائدہ ہوا۔

وبا کے دوران بھی ہتھیاروں کی فروخت
تھنک ٹینک سپری کی محقق الیگزانڈرا مارکشٹائنر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ سن 2020 کورونا وبا کا پہلا مکمل سال تھا اور اس میں سب سے حیران کن بات یہ دیکھی گئی کہ عالمی معیشت کی شرح میں 3.1 فیصد سکڑاؤ پیدا ہوا لیکن اسلحے اور ہتھیاروں کے کاروبار کو وبا کے دور میں بھی فروغ حاصل ہوا۔ مارکشٹائنر کے مطابق اس شعبے میں 1.3 فیصد کی وسعت پیدا ہوئی۔

سالِ گزشتہ میں ایک سو بڑی اسلحہ بیچنے والی کمپنیوں نے مجموعی طور پر پانچ سو اکتیس بلین ڈالر یا چار سو انہتر بلین یورو کے ہتھیار بنائے اور فروخت کیے۔ یہ مالیت بیلجیم کی اقتصادی پیداوار سے بھی زیادہ بنتی ہے۔

ان اسلحہ ساز کمپنیوں میں اکتالیس فیصد کا تعلق امریکا سے ہے اور ان کا اسلحے کی پروڈکشن اور فروخت کا حصہ چون فیصد کے قریب ہے۔ ان میں سب سے اہم امریکا کی بڑی ہتھیار ساز کمپنی لاک ہیڈ سب سے نمایاں ہیں، جس نے اٹھاون بلین کا اسلحہ تیار کیا اور بیچا۔

اسلحہ ساز کمپنیوں کا اثر و رسوخ
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان اسلحہ ساز کمپنیوں کو سیاسی قوتوں کا سہارا بھی حاصل ہے۔ بون انٹرنیشنل سینٹر برائے مطالعاتِ تنازعات کے پولیٹیکل سائنٹسٹ کارکوس بایر کا کہنا ہے کہ یہ ہتھیار بنانے والی کمپنیاں بعض معاملات میں اپنا سیاسی اثر و رسوخ بھی استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتیں۔ انہوں نے ایک امریکی غیر حکومتی تنظیم ‘اوپن سیکرٹ‘ کی رپورٹ کا حوالہ دیا ہے، جس میں بیان کیا گیا کہ آرمز کمپنیاں اپنے اثر و رسوخ کو برقرار رکھنے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کرتی ہیں۔

تھنک ٹینک سپری کی محقق الیگزانڈرا مارکشٹائنر کا کہنا ہے کہ بعض امریکی کمپنیوں کو وبا کے دوران بھی امریکا کی وزارتِ خارجہ کی مخصوص حمایت بھی حاصل رہی ہے۔

ایشیا میں اسلحہ سازی
جرمن شہر فرینکفرٹ میں قائم تھنک ٹینک پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں آرمز کنٹرول ایکسپرٹ سیمونے ویسوٹسکی کا کہنا ہے کہ اسلحے کی دوڑ میں گلوبل ساؤتھ کی کمپنیوں کی اہمیت بڑھ گئی ہے اور انہوں نے اس میں بھارت کا حوالہ دیا ہے۔ ویسوٹسکی کے مطابق ایک سو بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں میں بھارت سے تعلق رکھنے والی تین ہتھیار ساز کمپنیاں شامل ہیں۔ ان کی فروخت مجموعی فروخت کا 1.2 فیصد ہے اور یہ جنوبی کوریائی کمپنیوں کے مساوی ہے۔

بھارت کے شمالی ہمسایہ ملک چین میں اسلحہ سازی کی کئی فیکٹریاں ہیں۔ ان میں پانچ کو چین کی فوج کو جدید بنانے کے پروگرام کی سرپرستی بھی حاصل ہے۔ چین کا ہتھیاروں کی کُل فروخت میں حصہ تیرہ فیصد بنتا ہے اور یوں اسے براعظم ایشیا میں پہلا مقام حاصل ہے۔