جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمنی میں نئے کورونا وائرس کے اولین کیس کی تشخیص ٹھیک ایک سال پہلے ہوئی تھی۔ جنوری دو ہزار بیس کے اواخر میں اس دن کے بعد کے تین سو پینسٹھ دنوں میں اس وبا کی وجہ سے سب کچھ بدل چکا ہے، جیسے باقی ساری دنیا میں بھی۔
یہ گزشتہ برس 27 جنوری کا دن تھا۔ جنوبی جرمن صوبے باویریا کے چھوٹے سے شہر شٹارن برگ کی ایک فرم میں، جس کے چین کے ساتھ قریبی کاروباری رابطے تھے، ایک کارکن میں نئے کورونا وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہو گئی تھی۔ اس کے بعد کے ایک سال میں تو جرمنی وہ رہا ہی نہیں جو یہ ملک کبھی تھا۔
دنیا کے دیگر ممالک کی طرح جرمنی میں اس سال بھی عام لوگ کسی سے ہاتھ ملاتے ہیں اور نا گلے ملتے ہیں۔ وہ زیادہ تر اپنے گھروں میں رہتے ہیں اور دوسرے لوگوں سے رابطوں سے بچتے ہیں۔
جرمنی کورونا وائرس کی وجہ سے لگنے والی بیماری کووڈ انیس کے باعث اس حد تک بدل چکا ہے کہ اس جوثومے اور اس مرض سے جڑے حالات و واقعات کے باعث جرمن زبان میں درجنوں نے الفاظ کا اضافہ بھی ہو چکا ہے۔
جرمنی میں وبائی امراض سے بچاؤ کے اعلیٰ ترین ملکی ادارے کا نام روبرٹ کوخ انسٹیٹیوٹ ہے، یہ بات 27 جنوری 2020 کے دن تک زیادہ تر صرف اس ادارے کے لیے کام کرنے والے ماہرین ہی جانتے تھے۔ آج اس ادارے کے نام اور کام سے سارا ملک اور ہر گھرانا واقف ہے۔
اسی وبا کی وجہ سے جرمن وائرالوجسٹ بین الاقوامی سطح پر مشہور شخصیات بن چکے ہیں، جیسے کہ برلن کے شاریٹی ہسپتال کے وائرالوجسٹ کرسٹیان ڈورسٹن۔
اس کے علاوہ وفاقی جرمن وزیر دفاع ژینس شپاہن کی عوامی مقبولیت بھی بہت زیادہ ہو چکی ہے۔ انہوں نے اس وبا کے اوائل ہی میں یہ پہچان لیا تھا اور اس تلخ حقیقت کا اظہار بھی کر دیا تھا کہ اس عالمگیر وبا کے نتیجے میں صرف دو طرح کے انسان دیکھنے میں آئیں گے: ایک وہ جو جیت جائیں گے اور دوسرے وہ جو ہار جائیں گے۔
جرمنی میں اس وبا کے گزشتہ ایک سال کے بارے میں وزیر صحت شپاہن نے حال ہی میں ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ”ہم نے ایک سال پہلے اس وبا اور اس کے خطرات کے پیش نظر تمام احتیاطی اقدامات کرتے ہوئے صحت کے ملکی نظام کو اس وائرس کے خلاف تیار کر لیا تھا۔ لیکن اس کے بعد کے بارہ مہینوں میں اس وائرس اور وبا کے جرمنی، یورپ اور ساری دنیا کے لیے ایسے اثرات نکلیں گے، میرے خیال میں یہ اس وقت کسی نے سوچا تک نہیں تھا۔ اس وائرس اور وبا کی وجہ سے ہم سب آج تک دم بخود ہیں۔‘‘
جرمنی میں اب تک کورونا وائرس کی انفیکشن کے نتیجے میں 50 ہزار سے زائد انسانوں کی جان جا چکی ہے۔ لیکن اس وبا کا خطرہ ابھی ٹلا نہیں بلکہ اس نے تاحال پورے ملک کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ ملک میں کورونا وائرس کی وجہ سے پہلی موت آٹھ مارچ کو ہوئی، جو ایک مرد شہری تھا۔
جرمن حکومت ہوائی کمپنی لفتھانزا کو نو بلین یورو کی امداد دے رہی ہے۔ اس امداد کے بعد برلن حکومت لفتھانزا کے بیس فیصد حصص کی مالک بن جائے گی اور اس شرح میں اضافہ بھی ممکن ہے۔ جرمن وزیر اقتصادیات پیٹر آلٹمائر نے واضح کیا ہے کہ مالی امداد کے باوجود حکومت کی جانب سے کمپنی کے کارپوریٹ فیصلوں میں مداخلت نہیں کی جائے گی۔
دس مارچ تک کورونا وائرس کی ملک کے تمام سولہ صوبوں میں تشخیص ہو چکی تھی۔ اس مرض کا گڑھ یا ‘ہاٹ سپاٹ‘ بن جانے والا پہلا شہر صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کا شہر ہائنزبرگ تھا، جہاں اس وائرس کے مقامی طور پر وسیع تر پھیلاؤ کا سبب کارنیوال کی ایک تقریب بنی تھی۔
گزشتہ برس 18 مارچ کو ملک میں تیزی سے پھیلتے ہوئے کورونا وائرس کے پیش نظر چانسلر انگیلا میرکل نے اس وبا کے موضوع پر ٹیلی وژن کے ذریعے جرمن قوم سے اپنا پہلا خطاب کیا تھا۔ چانسلر میرکل کا لہجہ انتہائی سنجیدہ تھا اور عوام کے نام ان کے پیغام کی نوعیت بہت حیران کن اور ڈرامائی تھی۔
تب انگیلا میرکل نے کہا تھا، ”یہ ایک سجنیدہ خطرہ ہے۔ آپ بھی اسے سنجیدگی سے لیں۔ جب سے جرمنی دوبارہ متحد ہوا ہے، بلکہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے لے کر آج تک ہمارے ملک کو ایسے کسی اور بہت بڑے چیلنج کا سامنا نہیں کرنا پڑا، جس میں فیصلہ کن اہمیت اس بات کو حاصل رہی ہو کہ ہم سب مل کر اپنے رویوں میں کس حد تک یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔‘‘