اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستانی خواجہ سراؤں کی کمیونٹی کو ملک میں ثقافتی اور قانونی استحصالی رویوں کا سامنا ہے۔ اب کورونا کی وبا نے اس کمیونٹی کی حیات کو مزید پریشانیوں سے دوچار کر دیا ہے۔
پاکستان میں کئی ایسی انسانی گروہ ہیں، جنہیں انتہائی مشکل اور نامساعد حالات کا سامنا رہتا ہے۔ ان میں ایک ٹرانس جینڈر (مخنث یا ہیجڑے) افراد کی کمیونٹی بھی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے ایک ٹرانس جینڈر شائستہ کا کہنا تھا،” کورونا لاک ڈاؤن کے بعد میرے لیے مشکلات بڑھ گئی ہیں اور ابھی تک پابندیاں ختم ہونے کے بعد بھی مشکلات میں کمی نہیں ہوئی، عام لوگ اب بھی بات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔‘‘
یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کی یہ کمیونٹی غیر رسمی انداز میں روزگار کمانے پر مجبور ہے۔ یہ بھی ایک کڑوی صداقت ہے کہ ٹرانس جینڈر بازاروں میں بھیک مانگ کر گزر بسر کرتے ہیں یا پھر ان کو ایک سیکس ورکر کے طور پر لیا جاتا ہے۔
اس کمیونٹی کو نظر انداز کیے جانے کی سب سے بڑی وجہ تعلیم کی کمی اور انسان کے وقار کے احترام کے رویے کی کمیابی ہے۔ ٹرانس جینڈر کو ثقافتی تناظر میں بھی کمتر خیال کیا جاتا ہے تو ملکی نظام میں بھی ان کی کوئی وقعت نہیں دیکھی جاتی۔ اس عام متعصبانہ اور استحصالی رویے کی بنیادی وجہ آگہی و شعور کی کمی اور روزگار کے عدم مواقع ہیں۔
کورونا وائرس کی افزائش رواں برس مارچ میں شروع ہوئی تو لاک ڈاؤن اور دوسری پابندیوں بشمول سوشل ڈسٹینسنگ کا سامنا سبھی کو کرنا پڑا۔ ان پابندیوں نے ٹرانس جینڈرز کی معاشی مشکلات کو دوچند کر دیا اور انہیں پیٹ بھر کر روٹی کا ملنا بھی ممکن نہ رہا۔ ایک اور ٹرانس جینڈر نایاب علی کا کہنا ہے کہ اس کو مالک مکان نے کرایے کے اپارٹمنٹ سے بیدخل کر دیا تھا کیونکہ اس کا کورونا ٹیسٹ مثبت آ گیا تھا۔ نایاب علی پاکستان کے ان تھوڑے سے ٹرانس جینڈرز میں سے ایک ہے، جو باقاعدہ ملازمت کرتے ہیں۔ ایسا عام تاثر ہے کہ یہ افراد کورونا کی پکڑ میں آسانی سے آ جاتے ہیں۔
پاکستانی معاشرے میں اس کمیونٹی کے حوالے سے یہ تعصب بھی پایا جاتا ہے کہ یہ صفائی پسند اور حفظان صحت کے اصولوں کی پاسداری نہیں کرتے۔ ایسے ہی دوسرے تعصبات کی وجہ سے یہ عام زندگی کے مرکزی دھارے سے بہت دور ہیں۔ ان میں سے تقریباً نو فیصد بطور سیکس ورکر روزمرہ کے اخراجات کو پورا کرتے ہیں جب کہ تقریباً آٹھ فیصد کے روزگار کا انحصار شادی بیاہ یا سالگرہ یا بچے کی ولادت پر ڈانس کرنے پر ہے۔
سن 2019 میں سپریم کورٹ کے حکم پر مرتب کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے تقریباً تین لاکھ نفوس ہیں۔ بعض ذرائع کا خیال ہے کہ یہ تعداد زیادہ ہے اور کئی ایسے افراد نے خود کو خاص طور پر جنسی حراسانی کے ڈر سے رجسٹر کرانے سے اجتناب کیا تھا۔ پاکستانی آبادی کا حجم اکیس کروڑ سے زائد ہے۔
سن 2016 میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی کی ایک سرگرم کارکن علیشا کو خیبر پختونخوا کے شہر پشاور میں سات مرتبہ گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔ ہلاکت کے وقت علیشا کی عمر صرف تئیس برس تھی۔ ہسپتال میں تعصبانہ مخمصے کا یہ عالم تھا کہ طبی عملہ ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے سے قبل یہ طے نہیں کر پایا کہ علیشا کو مرد کی کیٹیگری میں لکھیں یا خاتون کی۔
دوسری جانب اس کمیونٹی کو دستور اور قانون کے تحت بنیادی حقوق اور دوسری سہولیات فراہم کرنے کا سلسلہ شروع ہے۔ اس کمیونٹی کو پہلی مرتبہ ووٹ ڈالنے کا حق بھی سن 2011 میں دیا گیا تھا۔ سن 2018 کی قومی مردم شماری میں ان کو علیحدہ شناخت فراہم کی گئی۔ پاکستانی دستور ٹرانس جینڈر افراد کو مساوی معاشی حقوق فراہم کرتا ہے لیکن حقیقت میں اس پر عمل نہ ہونے کے برابر کیا جاتا ہے۔ موروثی جائیداد میں حصہ دینے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اور مرنے کے بعد کی آخری رسومات میں رشتہ دار اور دوست شریک ہونے سے دور بھاگتے ہیں۔