وباء کے تکلیف دہ ایام میں جہاں شہر کی بقا ء شہر کے اجڑنے میں ہے موت ایک بھوکے بھیڑے کی طرح گلی کوچوں میںگھوم رہی ہر انسان اس خوف میں مبتلا ہے کہ ناجانے کب اور کس وقت پیام اجل اس کے دروازے پر دستک دے اور اس کے بعد ایک اذیت ناک موت اسکی منتظر ہو ایسی موت جس میں کچھ مسیحائوں اور سیاست دانوں کی بھی بے حسی بھی شامل ہے جہاں لواحقین کو آخری دیدار اوررسومات کی بھی اجازت نہیں ۔کچھ باتیں سمجھ سے بالاتر ہیں کہ جو وائرس بیس سیکنڈ ہاتھ دھونے سے بھاگ جاتا ہے وہ آدھا گھنٹہ مردہ نہلانے سے کیوں نہیں جاتا ؟دنیائے کفر کا خدا WHOکہہ بھی چکا ہے کہ وائرس مرنے والے کے ساتھ مرجاتا ہے چلیں آپ احتیاط جو کہ لازم ہے کو مدنظررکھتے ہوئے مردے کو تابوت میں ڈال کر اپنی نگرانی میں لواحقین کو عزت کے ساتھ دفنانے کی اجازت دیں ،سوشل میڈیا اور دیگرز پر کرونا سے وفات پانے والوں کی تدفین دیکھ کرایسے لگتا کہ اگلے لمحے پتا نہیں کیا ہوگا۔
ڈر لگتا ہے کہ ان ایام میں جو بھی انسان کسی بھی مرض سے وفات پائے گا وہ کرونا میں ہی شامل ہوگا ۔وباء سے انکار کب ہے مگر ہمارے میڈیا نے پوری قوم کو ذہنی مریض بنا کر رکھ دیا ہوا ہے سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا اس سے پہلے لوگ نہیں مرتے تھے ؟موت تو برحق ہے آنی ہی آنی ہے مگر موت سے پہلے اس کا خوف سب سے زیادہ اذیت ناک ہوتا ہے کاش ہمارا میڈیا طرز یہود پر عمل پیرا نہ ہوتا اور اسلامی جمہوریہ ریاست میں عوام کو احتیاط بتانے کے ساتھ اسلامی قوانین پر عمل کرنے کی تلقین کی جاتی۔حنوط شدہ میڈیا وہی پیغام دیتا ہے جس کا اسے حکم ملتا ہے جس ملک میں عیسائی اور دیگر زاداکار،سارا سال ناچنے گانے والے اور والیاںہمیں اسلام سکھائیںوہاں پر جہالت کے سواء کچھ نہیں ہوتا کاش وہ سیاسی ،سرکاری ،اشتہاری ،درباری،خوشامدی ملاں جو حکمرانوں کی خوشنودی کے لیے روز فتوئوں میں شریعت بیچتے ہیںچینلز پر بیٹھ کر یہ کہتے کہ کرونا سے بچنے کے لیے پانچ وقت وضو لازم ہے۔نمازعبادت اور اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے ساتھ ساتھ ایک بہترین انسانی ورزش بھی ہے ایک صفحہ قرآن پاک پڑھنا اور بھوک رکھ کر کھانا اور سادہ غذا یہ سب تدابیر آپ کو اس وباء سے بچاسکتی ہیں ۔
مگر یہاں تو وباء سے لڑنے کا درس دیا جارہا ہے ۔مجھے مینارہ صحافت سہیل وڑائچ کے کالم نے ہلا کر رکھ دیا کہ اتنی اختیاط کے باوجود وہ اس وباء کا شکار ہوئے اللہ تعالیٰ انکو شفائے کاملہ عطافرمائے آمین ۔وباء کے ان دنوں میں بہت سے اہل قلم افراد نے قوم کو مایوسیوں سے نکالنے کے لیے کلیدی کردار ادا کیا ہے جس بحرالعلم،محقق عصر،دانشور تجزیہ نگار اور معروف اسلامی سکالر استاد محترم اوریا مقبول جان ،حسب حال کے میزبان اور معروف صحافی ،تجزیہ نگار ،اینکر جنید سلیم ،شورش ثانی،استاد صحافت حافظ شفیق الرحمن (چیئرمین ورلڈکالمسٹ کلب) عبد الغنی شہزاد (صدررائٹرز گلڈ آف اسلام )حفیظ چوہدری صدر (اسلامک رائٹرز مو ومنٹ )اورمحترمہ فاطمہ قمر(صدر قومی زبان تحریک) یہ وہ افراد ہیں جنہوںنے میڈیا پراوراپنی قلم کے ذریعے قوم کو مایوسی سے نکالنے کے لیے جو کام کیا ہے وہ حقیقت میںقابل ستائش ہے۔بے شک مایوسی کفر ہے اور مسلمان کبھی مایوس نہیں ہوتا ۔کچھ عرصہ سے چند ہیجڑے نما مرد خواتین کا لبادہ اوڑھ کر سوشل میڈیا پر مختلف ناموں سے اکائونٹ بناکر بالخصوص فیس بک پر سینئر صحافیوں ،کالم نگاروں کی کردار کشی کرنے میں مصروف ہیں ۔جس کی زد میںراقم الحروف” طفل مکتب “سب سے پہلے آیا ہے شاید اس کے بعد بہت سے سینئر احباب دوستوں کے روپ میں چھپے دشمنوں کی شر کا شکار ہوئے ہیں ۔سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگ سستی شہرت کی خاطر دوسروں کی عزتیں اچھال کر سمجھتے ہیں کہ ان کی دستار سلامت رہے گی ۔
چند کاپی پیسٹر اور تین سے چار افراد پر مشتمل بچوں کی تنظیمیں بناکر سینئرز کو اپنی ناقابل اشاعت تحاریر کی اشاعت کرنے پر مجبور اور سستی شہرت کے حصول کے لیے ایسی اوچھی حرکات کرتے ہیں کہ جن کا سوچ کر بھی انسان کا ضمیر اسے ملامت کرتا ہے ۔مگر یہ بے ضمیر لوگ کسی بھی حد سے گزرنے کے لیے تیار رہتے ہیں میں ذاتی طور پر ایسے بہت سے افراد کو جانتا ہوں جو شاید خود ایک پہرہ بھی نہیں لکھ سکتے مگر ان کے کالمز ،مضامین قومی ودیگرز اخبارات کی زینت بنتے ہیں انکے کالمز ،مضامین کون لکھتا ہے اور کیسے شائع ہوجاتے ہیں ان کے پیچھے بہت سے مفادات اور سفارشات ہوتی ہیں ۔میں ایسی خودساختہ تنظیموں کو بھی جانتا ہوں جو بالخصوص خواتین سے انکے کالمز اخبارات میں شائع کروانے کے پیسے لیتے ہیں ۔یہ لوگ صرف قلم فروش ہی نہیں ،بلکہ یقین کیجئے اخلاقی گراوٹوں کا بھی شکارہوتے ہیں یہ بظاہر تن کے دھلے نظر آنے والے من کے اتنے گندے ہیں کہ ان سے پورا معاشرہ بدبو دار ہوچکا ہے۔احسان فراموشی کا عالم یہ ہے کہ کام نکلتے ہی یہ لوگ کردار کشی پر اتر آتے ہیں۔
اب پتا نہیں یہ کس نے خبر پھیلائی ہے کہ سادگی کی مثال امیرالمومنین وزیر اعظم پاکستان 37گاڑیوں کے ایک مختصر قافلے کے ساتھاایک روزہ دورے پر لاڑکانہ پہنچے وہاں پر 145کھانے ڈشز کو دیکھ کر یقیناہمارے امیرالمومنین نے تاریخی الفاظ ارشاد فرمائے ہونگے کہ مجھے یتیموں اور مسکینوں کے مرجھائے ہوئے چہرے دکھائی دے رہے ہیں اس لیے میں صرف سوکھی روٹی پر ہی قناعت کرونگا ۔امیر المومنین حضرت عمر فاروقکا بیٹا روزگار کی تلاش میں عراق گیا تو ۔ایک سال بعد واپس آیا تو مال سے لدے اونٹوں کے ساتھ آیا ۔حضرت عمر نے پوچھا کہ بیٹا اتنا مال کہاں سے ملا،بیٹے نے جواب دیا کہ تجارت کی ۔حضرت عمر نے پوچھا کہ تجارت کے لیے پیسے کہاں سے آیا ؟بیٹے نے جواب دیا کہ کہ چچا نے قرض دیا ۔چچا سے مراد کوفہ کا گورنر تھا ۔حضرت عمر نے فوراًگورنر کو مدینہ طلب کیا ،جو صحابی رسولۖ بھی تھے ۔
ان سے حضرت عمر نے پوچھا کہ کیا وہاں بیت المال میں اتنی دولت آگئی ہے کہ ہرشہری کو قرضہ دے سکتے ہو ؟گورنر نے جواب دیا کہ نہیں ایسا تو نہیں ۔حضرت عمر نے پوچھا کہ پھر تم نے میرے بیٹے کو قرض کیوں دیا ؟اس لیے ناں کہ وہ میرا بیٹا ہے؟میں تمہیں معزول کرتا ہوں کیونکہ تم امانت دار ی کے اہل نہیں ہو ۔پھر حضرت عمر نے اپنے بیٹے کو حکم دیا کہ سارا مال بیت الما ل میں جمع کرادو،اس پر تمہارا کوئی حق نہیں ہے۔ امیر الپاکستان کی جب بھی تقریر سنتا ہوں مایوسی کے سوا ء کچھ نہیں ملتا ہمارے وزیر اعظم صاحب بس یہی فرماتے پائے جاتے ہیں کہ اموات بہت زیادہ ہونگیں حالات بہت زیادہ بگڑے گئے ۔ایک ملک کا آئینی وزیر اعظم اور اتنی مایوس کن باتیں ۔مسلمان فاتحین کی تاریخ بھری پڑی ہے کہ وہ لوگ ہر حال میں رب تعالیٰ کی شکر گزاری کے ساتھ ساتھ پرامید رہتے تھے سلطان محمد فاتح ،محمد قاسم ،سلطان صلاح الدین ایوبی کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں مگر ہم نے اپنے بڑوں کی مثالوں سے کچھ سیکھا نہیں۔۔۔۔