مارچ 2020ء میں کورونا کا ہنگامہ شروع ہوا۔ یہ کورونا کی پہلی لہر تھی جو محض اللہ کے کرم سے اپنے اختتام کو پہنچی۔ اِس میں حکمرانوں کی کارکردگی محض نشستن، گفتن، برخاستن تک محدود رہی لیکن اُن کی بَلّے بَلّے ضرور ہوئی۔ حقیقت یہ کہ کورونا کی پہلی لہر میں کسی نے ایس او پیز پر عمل کیا نہ لاک ڈاؤن کو پرکاہ برابر حیثیت دی۔ چند ہی لوگ ہوںگے جنہوں نے کورونا ایس اوپیز پر بھرپور عمل کیا ہوگا، ہم بھی اُن میں سے ایک تھے۔ کورونوی موسم میں ہمیں یوں محسوس ہوتا تھا جیسے رخشِ عمر اپنی ڈَگر سے ہٹ گیا ہو۔ زندگی کی ساری دلچسپیاں کورونا ڈکار گیا اور ہم صرف گھر کے ہورہے۔ نہ بہار کے پھولوں کی خوشبو سے دماغ معطر کر سکے نہ پت جھڑ کے موسم میں گرتے پتّوں کی موسیقی سے لطف اندوز ہوئے۔ بس گھر میں قید کوئیں کے مینڈک بنے اِدھر اُدھر منڈلاتے رہے۔ ایک آدھ بار گھر سے باہر نکلے بھی تو لوگوں کو ایس اوپیز کو ہوا میں اُڑاتے دیکھ کر گھر میں بند رہنے میں ہی عافیت جانی۔ حقیقت یہی کہ ایس اوپیز پر عمل نہ کرنے والے ایسے خودکُش بمبار جن کے سامنے حکمران بے بس اور محض گیدڑ بھبھکیوں پر گزارا۔
اب کورونا کی دوسری لہر جاری ہے۔ ہر روز اِس موذی وبا گزیدہ لوگوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے لیکن حکمرانوں کے لیے متحدہ اپوزیشن کورونا سے بھی زیادہ خطرناک اِسی لیے سارے حکومتی بزرجمہر اپوزیشن کے لَتے لینے میں مصروف۔ حکمران طعنہ زَن کہ اپوزیشن ہوسِ اقتدار میں جلسے جلوسوں سے باز نہیں آرہی لیکن خود حکمرانوں کا یہ عالم کہ ہر روز کہیں نہ کہیں افتتاحی تقریب جس میں لوگوں کا جمِ غفیر، ایس اوپیز کی کہیں پابندی نظر نہیں آتی۔ یاد آیا کہ ایک دفعہ نوشیرواں عادل شکار پر گیا۔ شکار کے بعد پتہ چلا کہ نمک نہیں ہے تو نوشیرواں نے حکم دیا کہ قریبی گاؤں سے نمک لایا جائے لیکن قیمت ادا کرکے۔ مصاحبوں نے کہا کہ اتنی معمولی سی شے کے لیے قیمت ادا کرنے کی کیا ضروت ہے۔ نوشیرواں نے کہا کہ اگر حکمران ایک انڈے پر ظلم روا رکھیں گے تو رعایا ساری مرغیاں ہڑپ کر جائے گی۔ عرض ہے کہ جب حکمران ہی ایس اوپیز کی دھجیاں بکھیرتے نظر آئیں گے تو عوام کو اِس کی کیسے تلقین کر سکتے ہیں۔ ہم نے کورونا سے بچنے کی بھرپور کوشش کے بعد جب یہ جانا کہ عوام ایس اوپیز پر عمل کرنے کے لیے مطلق تیار نہیں تو سوچا کہ چلو امریکہ چلتے ہیں جہاں معاشرہ سولائزڈ اور لوگ اتنے پڑھے لکھے کہ نومود بھی فَر فَر انگریزی بولتے ہیں۔ مقصد محض یہ تھا کہ گھر سے باہر نکلنے کی کوئی تو سبیل ہو۔ رختِ سفر باندھا اور عزیزوں، رشتہ داروں کے بار بار منع کرنے کے باوجود ہیوسٹن پہنچ کر ہی دَم لیا۔ ہیوسٹن پہنچنے کے بعد تین دنوں تک بیٹی کے گھر میں قرنطینہ کیا اور چوتھے روز ناک میں سلائی پھروا کر ثابت کر دیا کہ ہم ”کورونا زدہ” نہیں۔ کورونا کا ٹیسٹ ہم نے پاکستان میں بھی آنے سے 2 دن پہلے کروایا لیکن تسلی نہ ہوئی اِسی لیے ”آقاؤں” کے دیس میں دوبارہ ٹیسٹ کروایا تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے۔
اگلے دن ہم باہر نکلنے کے لیے تیار تھے۔ تب بیٹی کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ کی ہمیں سمجھ نہیں آئی۔ یہ بھید تو اُس وقت کھُلا جب ہم باہر نکلے اور ماسک یا سماجی فاصلے کا دور دور تک نام ونشان تک نہ پایا۔ پاکستان میں تو پھر بھی ”ٹانواں ٹانواں” ماسک نظر آجاتے تھے اور ہم جیسے کچھ ”بیوقوف” کورونا ایس اوپیز پر بھرپور عمل کرتے دکھائی بھی دیتے تھے لیکن امریکہ میں تو شاید کسی کو یہ علم بھی نہ ہو کہ ایس اوپیز کس چڑیا کا نام ہے۔ شاید ہمارے امریکی آقا یہ سمجھتے ہوں کہ وہ دنیا کے حکمران، اُنہیں بھلا کورونا سے کیا ڈر۔ اِسی زعم میں وہ لاکھوں مروا بیٹھے اور کروڑوں اِس مرض میں مبتلائ۔ پھر بھی آفرین ہے ”سولائزڈ” امریکیوں پر جو اب بھی کورونا کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔ اب ہم ”پاکستانی پنجرے” سے نکل کر ”امریکی پنجرے” میں قیدپھڑپھڑاتے ہوئے سوچ رہے ہیں ”جو سُکھ اپنے چوبارے، وہ نہ بلخ نہ بخارے”۔
ہیوسٹن پہنچنے کے بعد ہی ہمیں خبر ملی کہ میاں برادران کی والدہ بیگم شمیم اختر راہیٔ عدم کو لبّیک کہہ چکیں اور میاں برادران ایک اور برگد کی ٹھنڈی چھاؤں سے محروم ہو چکے۔ اِس سے پہلے جلاوطنی میں اُن کے والدِ گرامی میاں شریف کا انتقال ہوا۔ جب سے یہ خبر سنی ہے ہماری سوچوں کا محور بس ایک کہ ”بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے”۔ گزشتہ تیس سالوں سے کسی نہ کسی حوالے سے حکمران رہنے والے شریف خاندان نے بھی کیا عجب قسمت پائی ہے۔ پہلے ذوالفقار علی بھٹو نے میاں محمد شریف کا سب کچھ چھین کر اُنہیںبے یارومددگار کرنے کی کوشش کی۔ پھر جب اِس خاندان کو حکمرانی کا شوق چرایا تو کسی پَل چین نہ پایا۔ نوے کی دہائی میں پہلے صدر غلام اسحاق خاں نے 58-B2 کا استعمال کرکے میاں نوازشریف سے وزارتِ عظمیٰ چھینی اور پھر 1999ء میں پرویزمشرف نے اُنہیں ایوانِ وزیرِاعظم سے سیدھا جیل بھیجا اور پھر پورے خاندان کو جلاوطن کر دیا۔ صرف شہبازشریف کے نوجوان بیٹے حمزہ شہباز کو پاکستان رہنے کی اجازت ملی۔
سعودی عرب میں جلاوطنی کے دوران میاں محمد شریف کی وفات ہوئی تو خاندان میں سے کسی شخص کو جسدِ خاکی کے ساتھ پاکستان آنے کی اجازت نہ ملی۔ صرف حمزہ شہباز نے جاتی اُمرا میں اپنے شفیق دادا کو لحد میں اُتارا۔ 2008ء میں بینظیر بھٹو این آراو کی چھتری تلے خود ساختہ جلاطنی ختم کرکے پاکستان پہنچیں تو شریف خاندان کو بھی پاکستان واپسی کا موقع میسر آگیا۔ 2013ء کے عام انتخابات کے بعد میاں نوازشریف نے تیسری مرتبہ وزارتِ عظمیٰ سنبھالی لیکن اگست 2014ء میں عمران خاں اور اُن کے سیاسی کزن مولانا طاہر القادری نے ڈی چوک اسلام آباد میں ڈیرے جما لیے۔ اِس ایک سو چھبیس روزہ دھرنے میں کیا کچھ ہوا، یہ سب تاریخ کا حصّہ ہے لیکن سیاسی کزنز نے میاں نواز شریف کو ایوانِ وزیرِاعظم سے بے دخل کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ پھر پاناما کا ہنگامہ اُٹھا اور جو بالآخر میاں نوازشریف کی تاحیات نااہلی اور جیل یاترا پر ختم ہوا۔ میاں صاحب کی اہلیہ محترمہ کلثوم نواز لندن میں بسترِ مرگ پر تھیں اور میاں نوازشریف اپنی بیٹی مریم نواز کے ساتھ اُن کے تیماردار۔ پھر چشمِ فلک نے یہ بھی دیکھا کہ میاں نوازشریف اپنی بیگم کو بسترِمرگ پر چھوڑ کراپنی بیٹی کے ہمراہ جیل کاٹنے پاکستان آگئے۔ اُس وقت سنگدلی کی یہ انتہا بھی دیکھنے میں آئی کہ نوازلیگ کے مخالفین نے بیگم کلثوم نواز کی بیماری کو محض ڈرامہ قرار دیا۔
میاں نوازشریف اور مریم نواز کو جیل میں بیگم کلثوم نواز کی موت کی خبر ملی۔ تب اُن کے دل پر کیا بیتی ہوگی، یہ صرف وہ باپ بیٹی ہی جانتے ہیں۔ بیگم کلثوم نواز کا جسدِخاکی پاکستان پہنچا تو پیرول پر رہا باپ بیٹی نے اُن کی آخری رسومات ادا کیں۔ اب بیگم شمیم اختر کا جسدِخاکی پاکستان آن پہنچا۔ میاں شہبازشریف اور حمزہ شہباز کو بیگم صاحبہ کا جسدِ خاکی لحد میں اتارنے کی خاطر پانچ دنوں کے لیے پیرول پر رہا کیا جا چکا لیکن میاں نوازشریف سمیت پورا خاندان لندن میں ہے۔ سمجھ سے بالاتر کہ آخر میاں خاندان کے ساتھ ہی بار بار ایسا کیوں ہوتا ہے۔