کرونا ایک معمہ

Coronavirus

Coronavirus

تحریر : حاجی محمد لطیف کھوکھر

کرونا وائرس نے گزشتہ ڈیڑھ سال سے دنیا بھر کے ماہر سائنسدانوں کو ہنوز مصروف رکھ اہوا ہے۔2020 ء میںجب اٹلی، برازیل، امریکہ اور دیگر ممالک کرونا کی وباء سے حواس باختہ تھے اْس وقت بھی لوگ باگ محو حیرت تھے کہ آخر یہ وائرس ہزار قسم کے دیگر وائرسوں سے اتنا زیادہ تباہ کن کیوں ہے، مگر اس سے پہلے کہ اس سوال کا تسلی بخش جواب ملتا، رواں سال میں اس کے ذریعہ پھیلنے والی دوسری لہر نے دیگر ملکوں کے علاوہ خود ہمارے ملک میں بھی ایسے خوفناک حالات پیدا کردیئے ہیں کہ عقل دنگ ہے اور اس نے سوچنے کی راہیں مسدود کر دی ہیں ہے۔ جبکہ چین سمیت مغربی ملکو ں نے اسے کنٹرول کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جس کے نتیجے میں وہ راحت کا سانس لینے کے قابل ہورہے ہیں مگر وطن عزیز میں اس پر قابو پانے کے اقدامات کو تسلی بخش ہی کہا جا سکتا ہے ۔ کرونا سے ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔

اس مجموعی تعداد کے تعلق سے الگ الگ دعوے اس بات کا ثبوت ہیں کہ کرونا پر قابو پانے کے بجائے ہمیں بے بس کردیا ہے۔ اس کی وجہ حکومت کی نااہلی تو ہے ہی، وائرس کی بدلتی ہوئی ہیئت بھی ہے ۔ کوئی نہیں جانتا کہ وبال جان بنا ہوا یہ وائرس کتنی شکلیں بدل رہا ہے اور کس شکل میں کتنا مہلک ہے۔کرونا کی وباتمام براعظموں ، سما جی طبقات ،شہروں ،دیہات، مالداروں اور غریبوں سب کے لیے برابر کا خطرہ ہے۔ یقینی طور پردنیا پر چھائی ہوئی یہ آفت ایک دن ختم ہوجائے گی لیکن کب؟۔یہ کوئی نہیں جانتا ہوسکتا ہے کہ موسم گرما سے پہلے یہ ختم ہوجائے۔ممکن ہے آئندہ موسم سرما تک اس کا خطرہ منڈلاتا رہے یا مستقل بنیادوں پر ڈیرے ڈال لے۔آزمائش کے اس لمحے میں اقوام عالم کو یہ ‘/ہو چکا ہے کہ انہیں ایکدوسرے کی کتنی ضرورت ہے۔ اس کے باجوو کہ امریکہ اور چین کے درمیان اختلافات، ایک دوسرے پر الزامات ، عداوت اور کرہ ارض پر ہرطرح کے انتقام کے باوجود کرونا کی وبا ایک ایسی دشمن بن گئی جس نے دنیا کو عارضی طور پر سہی ایک کردیا ہے۔ برازیل میں پایا جانے والا وائرس چار پانچ سال سے کم عمر کے بچوںپر حملہ آور ہورہا ہے جس کی وجہ سے وہاں بچوں کی شرحِ اموات دیگر ملکوں کے مقابلے میں افسوسناک حد تک زیادہ ہے۔ اکنامک ٹائمز کی ایک خبر کے مطابق جب سے وباء پھیلی ہے تب سے لے کر اب تک پانچ سال سے کم عمر سینکڑوںبچے جاں بحق ہوچکے ہیں۔

سب جانتے ہیں کہ امریکہ میں کرونا نے زبردست تباہی مچائی، وہاں شرح اموات بھی زیادہ تھی اس کے باوجود وباء کے پھیلنے سے لے کر اب تک امریکہ میں صرف931 بچے ہلاک ہوئے۔ اس تناظر میں برازیل کی شرح ِامواتِ اطفال کو سمجھنا مشکل ہے۔ سائنسداں بھی محو حیرت ہیں کیونکہ دْنیا کے کسی ملک سے بچوں کی اموات کی اتنی بڑی تعداد سامنے نہیں آئی ہے۔ واضح رہے کہ امریکہ کی آبادی برازیل سے زیادہ ہے، وہاں وباء کا اثر بھی زیادہ تھا اس کے باوجود بچوں کی اتنی اموات نہیں ہیں جتنی کہ برازیل میں ہے۔ کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ کرونا وائرس کے پوری طرح سمجھے جانے میں اب بھی وقت ہے؟ ۔ دی ایٹلانٹک کے مطابق وباء شروع ہونے کے بعد سے اب تک کووڈ۔19 پر ساڑھے سات ہزار تحقیقی مقالے شائع ہوچکے ہیں۔ پوری دْنیا میں اس وائرس کو سمجھنے اور اس کا علاج دریافت کرنے پر توانائی اور رقم خرچ کی جارہی ہے، اس کے باوجود جو حال ہے وہ سب پر ظاہر ہے۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اسے جتنا سمجھا جاتا ہے یہ اْتنا ہی سمجھ سے بالاتر ہوجاتا ہے۔ اس کا ایک ثبوت وبائی ماہرین، طبی تحقیقی اسکالروں اور شعبہ طب کے دیگر ماہرین کے دعووں میں پایا جانے والا اختلاف ہے جس کے پیش نظر اب بھی یہ کہنا مشکل ہے کہ کس ملک کے سائنسداں کرونا کو سمجھنے میں زیادہ کامیاب ہیں یا نہیں۔نیو یارک ریاستہائے متحدہ امریکہ کا سب سے بڑا شہر ہے جو کروناکے متاثرین اور مہلوکین کی تعداد کے اعتبار سے بھی امریکہ کا سب سے بڑا شہر ثابت ہوا تھا اور اس شہر کو شہر خموشاں میں تبدیل کردیا تھا۔ اسپتال بھرے پڑے تھے۔ نہ تو متاثرین کیلئے جگہ تھی نہ ہی مہلوکین کی نعشوں کیلئے۔ سرد خانوں والے ٹریلز کو عارضی نعش خانوں کے طور پر استعمال کیا جارہا تھا۔ شہری انتظامیہ نے بہت سے کاروبار اور تجارتی اداروں کو دوبارہ کھولنے کی اجازت دے دی ہے۔ جو شہری ویکسین لگوا چکے ہیں اْنہیں ماسک کے بغیر گھر سے باہر نکلنے کی بھی اجازت دی جا چکی ہے۔

چین کی مثال ضرور سامنے رکھنی چاہئے۔ کرونا کی وباء وہیں سے شروع ہوئی مگر ابتدائی تغافل کے بعد اس نے خود کو اس طرح سنبھالا کہ جب دْنیا کے اکثر ممالک کورونا سے بْری طرح ہانپ رہے تھے، چین کے حالات بڑی حد تک نارمل ہوچکے تھے۔ نیوزی لینڈکو بھی کرونا سے نمٹنے اور جلد کامیاب ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ جرمنی نے اپریل کے اواخر میں جزوی بحالی کی اور گزشتہ ہفتے تمام دکانیں اور اسکولیں کھولنے کا فیصلہ کرلیا۔ جنوبی کوریا نے ابتدائی دنوں ہی میں بڑے پیمانے پر ٹیسٹنگ شروع کردی تھی اسلئے خود کو بچانے میں کامیاب ہوا۔ اسے لاک ڈاون کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ ایسے کئی دیگر ممالک بھی بہتر تدابیر اختیار کرنے اور اْن کے مثبت نتائج سے ہمکنار ہونے والوں میں شامل ہیں جنہیں بطور نظیر سامنے رکھا جاسکتا ہے۔ اس پوری تفصیل سے یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگتی کہ جن ملکوں نے حالات کی نزاکت کو سمجھا، بہتر حکمت عملی اپنائی اور موثر اقدامات کئے اْنہیں یا تو کورونا نے ڈرایا دھمکایا نہیں یا اس مہلک وائرس کے سخت حملے کے باوجود انہوں نے خود کو سنبھال لیا۔ ہماری حالت اس کے برعکس ہے۔

ہم نے کوئی جامع منصوبہ بندی نہیں کی ۔ دیگر ملکوں نے ٹھیک ہے کہنے کے بجائے ٹھیک کرنے کو ترجیح دی اور حالات کو ٹھیک کرکے ہی دم لیا۔ دْنیا کے دیگر ملکوں نے کرونا کی پہلی لہر کے بعد دوسری لہر کی تیاری شروع کردی تھی۔ انہوں نے اس مسئلہ اور بحران کو عارضی نہیں سمجھا۔ انہوں نے ویکسین کا آرڈر دیا اور اْنہیں حاصل کیا۔ اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ کرونا کے خلاف لڑائی میں ہم جیت رہے ہیں یا نہیں۔ دوسری جانب ایک سال سے صنعتی و تجارتی شعبے مسلسل نقصان سے دوچار ہے۔ اگر اْس وقت اتنی سختی نہ برتی گئی ہوتی تو ان کی معاشی قوت اتنی کم نہ ہوجاتی جتنی بار بار لاک ڈائون کے نفاذ سے ہوئی ۔ سیاست سے قطع نظر، یہ حقیقت ہے کہ بازار ایک دن بند رہیں تو دکانداروں کو بھی نقصان اْٹھانا پڑتا ہے اور گاہکوں کو بھی۔ دونوں ہی کے نقصان پر موقوف نہیں، تیسرا نقصان حکومت کا ہوتا ہے۔ اگر دکانداروں کو منافع نہیں ملتا تو گاہک مطلوبہ اشیاء خرید نہیں پاتے۔ حکومت کو ٹیکس نہیں ملتا اور آمدنی بھی متاثر رہتی ہے۔ ملک کی جی ڈی پی میں کمی آجاتی ہے اور معاشی نمو ماند پڑ جاتی ہے۔دیگر تمام جنگوں کی طرح کرونا کی جنگ میں بھی لوگ مر رہے ہیں۔

Haji Mohammad Latif Khokhar

Haji Mohammad Latif Khokhar

تحریر : حاجی محمد لطیف کھوکھر