اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان میں لاکھوں محنت کشوں کو دوہرے المیے کا سامنا ہے۔ گھر بیٹھیں تو کھائیں کہاں سے؟ اور باہر جائیں تو ایک طرف کورونا کا خطرہ اور دوسری طرف بے روزگاری۔
کرم دین صوبہ پنجاب میں ڈیرہ غازی خان سے روزگار کی تلاش میں اسلام آباد آئے۔ کہتے ہیں، “میں پچھلے چھ سال سے اسلام آباد میں مزدوری کرتا ہوں اور اپنے خاندان کا واحد کفیل ہوں۔ میری بیوی، چار بچے اور ماں باپ ڈیرہ غازی خان کے قریب ایک گاؤں میں رہتے ہیں۔ پہلے تو روزانہ اجرت پر مزدوری مل ہی جاتی تھی، لیکن پچھلے تین ماہ سے مجھے وبا کے باعث کوئی کام نہیں ملا۔ نہ کوئی سرکاری امداد اور نہ راشن۔ میں اپنے گاؤں بھی نہیں جا سکتا کہ میرے پاس کچھ ہے ہی نہیں۔ اگر گیا بھی تو جانتا ہوں کہ وہاں بھی کوئی کام نہیں ملے گا۔”
اب جبکہ پاکستان میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے ہلاکتوں میں تیزی آ رہی ہے، محنت مزدوری کرنے والوں کو دہرے المیے کا سامنا ہے۔ اگر گھر میں رہیں تو سب سے بڑا مسئلہ بھوک ہے۔ اگر باہر نکلیں تو کورونا وائرس کا خطرہ اور بے روزگاری کا سامنا ہوتا ہے۔
پاکستان میں محنت کشوں پر تحقیق کرنے والی غر سرکاری تنظیم سینٹر فار لیبر ریسرچ (پائلر) کے مطابق ملک میں روزانہ، ہفتہ وار یا ماہانہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کی تعداد تقریباﹰ 26 ملین ہے۔ ان میں سے تقریباﹰ پانچ ملین کو معاوضہ روز کی بنیاد پر ملتا ہے جبکہ چار ملین کو ہفتہ وار۔
ملبوسات کے تجارتی شعبے سے تعلق رکھنے والے مقامی تاجر سید کاشف گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”میں نے تین بار کاروبار کرنے کی کوشش کی، ہر بار نقصان ہی اٹھایا۔ اس کی وجہ ہمارا نظام ہے۔ حکومت معیشت کو زیادہ کاروبار دوست بنانے پر توجہ نہیں دیتی۔ ہمارا تو نظام ہی ایسا ہے کہ بہت سے کاروبار بس ایک دو سال بعد ہی بند کرنا پڑ جاتے ہیں۔”
سید کاشف گیلانی کے بقول، ‘‘ہمارے قومی بجٹ میں زیادہ توجہ بھارت کے ساتھ عسکری مقابلے کی صلاحیت پر دی جاتی ہے۔ جب تک مالیاتی اور اقتصادی منصوبہ بندی کا محور عوامی بہبود کو نہیں بنایا جائے گا، کوئی مثبت تبدیلی کیسے ممکن ہو سکتی ہے؟ حکومت نے ترقیاتی بجٹ بارہ کم کر دیا اور دفاعی بجٹ بڑھا دیا۔ پاکستان میں تو بس یہی ایک ادارہ ہے جو ترقی کر رہا ہے۔”
قومی سیاست پر نظر رکھنے والے سماجی تجزیہ کار سجاد انور منصوری کہتے ہیں کہ موجودہ خراب صورت حال صرف کورونا وائرس کی وبا سے پیدا نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا، “یہ وبا تو فروری مارچ میں شروع ہوئی جبکہ ملک میں بےروزگار افراد کی تعداد تو گزشتہ دسمبر میں ہی ڈیڑھ کروڑ تک پہنچ چکی تھی۔ وبا اور لاک ڈاؤن سے حالات مزید خراب ہو گئے۔”
ان کے مطابق، ‘‘موجودہ حکومت کی پچھلے بیس ماہ میں تو کوئی متاثر کن اقتصادی پالیسی نظر نہیں آئی۔ حکمرانوں نے عام آدمی کی زندگی مشکل تر بنا دی ہے۔ اگر انہوں نے کچھ کیا ہوتا، تو وبا اور لاک ڈاؤن کے باوجود شاید حالات ایسے نہ ہوتے جیسے ہیں، بلکہ کچھ تو بہتر ہوتے۔”
اسلام آباد میں قائم غیر سرکاری تنظیم پبلک رائٹس اویئرنیس کے صدر محمد عبدالواحد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، “پاکستانی معیشت پہلے سے شدید بحران کا شکار تھی۔ ادائیگیوں کے توازن کا فقدان تھا، تجارتی خسارہ بہت زیادہ تھا اور سرمایہ کاری کافی کم۔ رہی سہی کسر کورونا کی وبا اور لاک ڈاؤن نے پوری کر دی۔ سندھ اور پنجاب میں حالیہ دنوں میں بڑی صنعتوں سے وابستہ ہزاروں کارکنوں کو نوکریوں سے نکالنے کے فیصلے بھی کیے گئے۔ صورت حال تشویش ناک حد تک خراب ہوئی ہے۔”
محمد عبدالواحد کے مطابق، “گزشتہ دو برسوں میں پاکستان کے ذمے قرضوں کی مالیت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے اور روپے کی قدر بھی گر چکی ہے۔ کورونا وائرس کی وبا اور لاک ڈاؤن کے نتیجے میں اپریل میں ملک کی ماہانہ برآمدات اور ان کی مالیت کم ہو کر نصف ہو گئیں۔ یہ پریشان کن حالات صرف چند ہفتوں یا ایک دو ماہ میں تو ختم نہیں ہو جائیں گے۔ اس کے نتائج ملکی معیشت کے ساتھ ساتھ لیبر مارکیٹ اور مزدور طبقے کو بھی بھگتنا پڑیں گے۔”
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے اندازوں کے مطابق ان حالات میں پاکستان میں اس سال کے آخر تک تقریباﹰ 13 ملین افراد بے روزگار ہو سکتے ہیں۔