جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) یورپی کمیشن کی پیش قدمی کے تحت حکومتوں، متعدد تنظیموں اور چند افراد کی طرف سے کووڈ انیس پر تحقیق اور اس کے خلاف ویکسین کی تیاری کے ليے اربوں ڈالر جمع کر لیے گئے ہيں۔
فنڈ ریزنگ کی میزبانی یورپی کمیشن (ای سی) نے کی تھی اور اس کی سربراہی میں متعدد ممالک بشمول جرمنی، ناروے، فرانس، برطانیہ، اٹلی، جاپان اور سعودی عرب، جو اس وقت جی ٹوئنٹی کی صدارت پر فائز ہے، شریک ہوئے۔ ان ممالک کے رہنماؤں نے کہا کہ کسی بھی ممکنہ ویکسین کی ”دستیابی، اس تک رسائی ہر ملک کے لیے یکساں اور اس کی قیمت سستی ہونی چاہیے۔‘‘
عالمی رہنماؤں نے کورونا وائرس ویکسین اور علاج کی تیاری کے لیے 7.4 بلین یورو کا وعدہ کیا ہے، جو تين گھنٹوں تک جاری ٹيلی ميراتھون کے بعد طے پایا۔ یورپی یونین کے کمیشن کی سربراہ اُرزولا فان ڈیئر لائن نے حکومتی اور بین الاقوامی تنظیموں کے سربراہوں کو ساتھ اس ٹیلی کانفرنس کی ميزبانی کی۔ کانفرنس ميں ہونے والی پيش رفت پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے فان ڈیئر لائن نے کہا کہ مجموعی طور پر 7.4 بلین یورو اکٹھا کیے گئے ہيں تاکہ تمام ممالک کو کورونا وائرس سے نمٹنے کے یکساں مواقع فراہم کیے جا سکیں۔ امریکا اور چین مالی اور سیاسی طور پر اس پیش قدمی کا حصہ نہيں ہيں۔
کورونا بحران کے آغاز میں یورپی یونین کے کمیشن کی سربراہ ارزولا فان ڈیئر لائن پر تنقید کی جاتی رہی کہ انہوں نے فوری اور کافی رد عمل ظاہر نہيں کیا۔ یورپی کمیشن کی سربراہ کی حیثیت سے ان کی یورپی یونین میں صحت کی دیکھ بھال کے امور سے متعلق صلاحیت پر سوال اٹھ رہے تھے لیکن جب اتحاد قائم کرنے اور رقم اکٹھا کرنے کی بات آتی ہے تو انہوں نے ثابت کر دیا کہ یورپی کمیشن بحيثيت ایک اتحاد کے یورپی یونین کے کسی بھی ملک سے زیادہ کام کر سکتا ہے۔
ارزولا فان ڈیئر لائن اپنے پروگرام ”گلوبل ريسپانس‘‘ کے ساتھ دنیا بھر میں ایک قائدانہ کردار ادا کرنا چاہتی ہيں۔ اپنے پروگرام میں شامل کرنے کی کوشش انہوں نے کئی حکومتی سربراہان کے ساتھ فون پر گفتگو کی۔ نتيجتاﹰ 40 ممالک، بین الاقوامی تنظیموں اور گیٹس فاؤنڈیشن جیسے بڑے عطیہ دہندگان نے اس فنڈ ريزنگ ميں شامل ہونے اور رقوم کے وعدے کا اعلان کر دیا۔ سب سے خوش آئند بات یہ ہے کہ ترقی پذیر ممالک تک بھی اس ویکسین اور جانچ کے سامان کی رسائی کو یقینی بنایا جائے گا۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے وعدہ کیا کہ اگر کثیرالجہتی تعاون ہمیشہ ان کی خواہشات کے مطابق نہیں بھی ہوتا ہے تو بھی جرمنی اس فنڈ میں ایک فعال حصہ ڈالے گا۔ امریکا کے رویے کے رد عمل ميں جرمنی نے 525 ملین یورو کا وعدہ کیا۔ فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں، جنہوں نے جرمنی کے ساتھ مل کر ڈونر کانفرنس کے ليے مہم چلائی، نے بھی نصف ارب کا وعدہ کیا اور اس ”تاریخی اقدام‘‘ کی تعریف کرتے ہوئے کہا، ”ہم ریکارڈ وقت میں حکومتوں اور نجی عطیہ دہندگان کا اتحاد بنانے ميں کامیاب ہوئے۔‘‘
اس پروگرام ميں شرکت کے لیے نہ تو امریکا اور نہ ہی چین کو راضی کیا جا سکا۔ بیجنگ حکومت کی نمائندگی اس کے یورپی یونین کے سفیر کی طرف سے ایک مبارکباد کے پیعام کے ذریعے کی گئی تھی۔ ایک یورپی پارلیمنٹيرين پیٹر لیز نے کہا کہ کورونا وائرس کے ليے چین کو خاص طور پر ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ کسی کو پہلے بیجنگ کے ساتھ بات چیت کرنا ہو گی، ”اگر ضرورت پڑی تو طاقت کی زبان بولیں گے۔‘‘ پیٹر لیز کے بقول چینی حکام یورپی یونین اور اس کی مالی منڈی کو توڑنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔‘‘
واشنگٹن کی طرف سے سرکای طور مکمل خاموشی چھائی ہے۔ امريکا کے غیر رسمی نمائندے کی حیثیت سے میلنڈا گیٹس نے انتباہ کیا کہ، ”کووڈ انیس ویکسین کا تعلق سب سے زیادہ بولی لگانے والوں کے مقابلے سے نہیں ہونا چاہيے۔‘‘ گیٹس فاؤنڈیشن نے پہلے ہی ”گلوبل رسپانس‘‘ کے ليے 100 ملین کا وعدہ کیا تھا، جس سے عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے بجٹ ميں کمی کو کسی حد تک پورا کیا گيا تھا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ڈبلیو ایچ او سے دوری اختیار کرنے کے سبب اس عالمی ادارہ صحت کو شديد مالی جھٹکا لگا تھا۔
برسلز ميں بہت سے سیاستدانوں کی طرح کرسچين ڈیموکریٹ پيٹر لیز نے امريکا کے رویے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ”یہ بہت مایوسی کی بات ہے کہ امریکا حکومت کی سطح پر اس میں شامل نہیں ہے۔‘‘