وائٹ ہاؤس (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی نائب صدر مائیک پینس بھی، اپنی ایک معاون ساتھی کے کووڈ 19 سے متاثر پائے جانے کے بعد، خود کو الگ تھلگ رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کووڈ 19 کی روک تھام کے خصوصی ٹاسک فورس سے وابستہ وہ ایسا کرنے والے چوتھے رکن ہیں۔
عالمی سطح پر کورونا وائرس سے متاثرین کی تعداد 41 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ دو لاکھ 82 ہزار سے بھی زیادہ افراد اب تک ہلاک ہو چکے ہیں۔
متاثرین اور ہلاکتوں کی مناسبت سے امریکا سر فہرست ہے جہاں 13 لاکھ سے بھی زیادہ افراد متاثر ہیں اور 78 ہزار سے بھی زیادہ ہلاک ہوچکے ہیں۔
جرمنی میں بھی بندشوں میں نرمی کے بعد سے کووڈ 19 سے انفیکشن کی شرح میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
ایک ایسے وقت جب عالمی سطح پر کورونا وائرس کی دوسری لہر کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، فرانس اور اسپین بھی لاک ڈاؤن میں نرمی کر رہے ہیں۔
امریکی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ نائب صدر مائیک پینس ہفتے اور اتوار کو اپنی رہائش پر خود کو تن تنہا رکھنے کے بعد پیر گیارہ مئی کو وائٹ ہاؤس میں دوبارہ واپس ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ حکام کے مطابق مائیک پینس وائٹ ہاؤس میں کام کرتے ہوئے دوسرے افراد سے اصول و ضوابط کے تحت ضروری فاصلہ بنا کر رکھیں گے۔ ان کے ایک ترجمان ڈیویئن او میلی کا کہنا تھا، ”نائب صدر پوری طرح سے قرنطینہ میں نہیں ہیں اور وہ وائٹ ہاؤس کے طبّی عملے کے مشوروں پر عمل کرتے رہیں گے۔ نائب صدر کے ٹیسٹ ہر روز ہی منفی آتے رہے ہیں اور وہ وائٹ ہاؤس میں موجود رہنے چاہتے ہیں۔”
اس سے پہلے امریکی نائب صدر کی پریس سکریٹری کیٹی ملر میں کورونا وائرس کے انفیکشن کی تصدیق ہوئی تھی جس کے بعد نائب صدر نے دو روز تک گھر میں الگ تھلگ رہنے کا فیصلہ کیا۔ قبل ازیں وائٹ ہاؤس کے ایک اور اہلکار میں کووڈ انیس کی تصدیق ہونے کے بعد ‘کورونا ٹاسک فورس’ کے تین اعلیٰ اہلکار بھی قرنطینہ میں چلے گئے تھے۔
وائٹ ہاؤس کی جو تین اہم شخصیات قرنطینہ میں ہیں ان میں ڈاکٹر اینتھونی فاؤچی شامل ہیں، جو نہ صرف صدر ٹرمپ کی کورونا وائرس کے خلاف ٹاسک فورس کے ایک کلیدی رکن ہیں بلکہ وہ امریکا میں الرجی اور متعدی بیماریوں کے قومی انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر بھی ہیں۔
ڈاکٹر فاؤچی کے ساتھ ساتھ قرنطینہ میں جانے والوں میں بیماریوں کی روک تھام اور تدارک کے مرکز یا سی ڈی سی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر رابرٹ ریڈ فیلڈ اور خوراک اور ادویات کے نگران ملکی ادارے ایف ڈی اے کے کمشنر اسٹیفن ہان بھی شامل ہیں۔ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ یہ اعلی حکام کورونا وائرس سے متاثر ہیں یا نہیں تاہم ان کے ایک معاون کو اس وبا سے متاثر پایا گیا ہے اس لیے وہ قرنطینہ میں ہیں۔
ایک ایسے وقت جب جرمنی میں ریسٹورنٹ، ہوٹلوں اور دیگر کاروبار کے حوالے سے پابندیوں میں نرمی کی جا رہی ہے، نئے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ جرمنی میں کورونا وائرس سے انفیکشن کی تعداد میں دوبارہ تیزی سے اضافے کا امکان ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق دس افراد اوسطاً 11 افراد کو متاثر کر سکتے ہیں۔ رابرٹ کوخ انسٹیٹوٹ کے مطابق جرمنی میں پیرگیارہ مئی کو 357 مزید کیسز کا پتہ چلا ہے اور اس طرح مجموعی طور پر متاثرین کی تعداد 169575 ہوگئی ہے۔ بائیس مزید افراد ہلاک بھی ہوئے ہیں اور ہلاک شدگان کی تعداد سات ہزار 417 ہوگئی ہے۔
ادھر چین میں کووڈ 19 کے 17 مزید معاملات سامنے آئے ہیں جن میں پانچ کا تعلق ووہان شہر سے ہے جہاں اس وائرس کی ابتدا ہوئی تھی۔ اس شہر میں کچھ روز پہلے تک کوئی نیا کیس سامنے نہیں آیا تھا اور یہ تعداد 11 مارچ کے بعد سے اب تک سب سے زیادہ ہے۔ حکام کے مطابق نئے کیسز میں سے پانچ بیرون ملک سے منتقل ہوئے ہیں اور پانچ کا تعلق روس اور جنوبی کوریا کی سرحدوں سے متصل ریاستوں جلین، ہیلانگ یانگ اور لیاننگ سے بتایا جا رہا ہے۔
پیر سے شنگھائی ڈزنی لینڈ کو بھی عوام کے لیے کھول دیا گیا ہے اور گزشتہ تین ماہ میں پہلی بار بڑی تعداد میں لوگوں کو ماسک پہنے وہاں آتے دیکھا گیا ہے۔ چین میں بھی بندشوں میں نرمی کی جارہی ہے اور تھیم پارک کو کھول دیا گیا ہے تاہم بہت کم لوگوں کو جانے کی اجازت ہے اور سوشل ڈسٹینسنگ کی وجہ سے پارک کے بعض حصوں کو اب بھی بند رکھا جائے گا۔
گھانا کے صدر نانا کوفو اڈو کا کنا ہے کہ کورونا وائرس سے متاثرہ ایک شخص نے فش پروسیسنگ فیکٹری میں کام کرنے والے 533 افراد کو متاثر کر دیا ہے۔ گھانا میں ابھی تک صرف ایک لاکھ 60 افراد کا ہی ٹیسٹ کیا گیا ہے۔ 921 افراد متاثر ہوئے ہیں جس میں سے بائیس ہلاک ہوچکے ہیں۔