چین (اصل میڈیا ڈیسک) یہ ابھی تک حتمی طور پر واضح نہیں کہ کورونا وائرس کی نئی قسم کہاں اور کب پیدا ہوئی۔ کیا یہ وائرس اُس چینی لیبارٹری سے نکلا، جہاں پر سائنسدان چمگادڑوں میں پائے جانے والے وائرس پر تحقیق جاری رکھے ہوئے تھے؟
اس مناسبت سے سازشی نظریات مختلف حکومتی اور تحقیقی حلقوں میں زیرِ بحث ہیں۔ ایک سازشی نظریہ یہ ہے کہ کووڈ انیس بیماری کا وائرس ایک چینی لیبارٹری میں چمگادڑ پر جاری ریسرچ کے دوران باہر نکلنے میں کامیاب ہوا اور پھر یہ انتہائی مہلک وائرس دنیا میں پھیلا۔ اس وائرس کی پیدائش کے حوالے سے ابھی تک کوئی مستند تحقیق سامنے نہیں آئی ہے۔ اس حوالے سے بعض سازشی نظریات حقیقت یا اس کے قریب محسوس ہوتے ہیں لیکن ان کے درست ہونے کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔
کئی ریسرچرز اور صحافیوں کو یقین ہے کہ کورونا وائرس کی نئی قسم نے چینی شہر ووہان ہی میں جنم لیا تھا۔ اس اشارے کے ثبوت میں ووہان کی ایک ایسی مارکیٹ کا حوالہ دیا جاتا ہے، جہاں تازہ گوشت، مچھلیاں اور بعض جنگلی حیات کا گوشت بھی فروخت ہوتا ہے۔ کچھ مغربی ذرائع ابلاغ کا موقف ہے کہ اس مارکیٹ کے قریب ہی واقع ووہان انسٹیٹیوٹ آف وائرولوجی ہے اور وہیں سے یہ وائرس اس مارکیٹ تک پہنچنے میں کامیاب ہوا اور پھر ڈیڑھ لاکھ سے زائد انسانی جانیں اس کی بھینٹ چڑھ گئیں۔
سماجی رابطے کی مختلف ویب سائٹس پر ایسے سازشی نظریات رواں برس جنوری میں چین میں وبا پھیلنے کے فوری بعد ہی سامنے آنا شروع ہو گئے تھے۔ ان کے مطابق یہ وائرس چینی فوج کی کسی تجربہ گاہ میں بطور ایک حیاتیاتی یا بائیولوجیکل ہتھیار کے طور پر بنایا گیا تھا۔
اُدھر معتبر امریکی جریدے واشنگٹن پوسٹ نے ایسے تمام سازشی نطریات کو بے وقعت اور بیکار قرار دے دیا ہے۔ اخبار کے مطابق یہ وائرس انسانی تخلیق نہیں ہے۔ اس اخباری رپورٹ میں سائنسی ماہرین کے حوالے دیے گئے کہ کورونا وائرس کی نئی قسم کے خواص قدرتی محسوس ہوتے ہیں اور اس میں انسانی ہاتھوں کا کوئی کرشمہ نہیں ہے۔
اخبار واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ طبی سائنسی جریدے ‘نیچر میڈیسن‘ میں شائع ہونے والی ایک ریسرچ پر مبنی تھی۔ اس ریسرچ کی قیادت سائنسدان کرسٹیان جی اینڈرسن کر رہے تھے۔ جریدے ‘نیچر میڈیسن‘ میں یہ رپورٹ سترہ مارچ کو شائع ہوئی تھی۔ یہ بات بھی امریکی اخبار کی رپورٹ کے حق میں جاتی ہے کہ ووہان کے ادارے کی لیبارٹریوں میں چمگادڑ میں پائے جانے والے مختلف وائرس پر تحقیق ڈھکی چھپی نہیں اور یہ تمام ریسرچ مختلف اوقات میں شائع کی جاتی رہی ہے۔
ووہان انسٹیٹوٹ برائے وائرولوجی میں چمگادڑ کے وائرس پر کی جانے والی کئی ریسرچز میں مغربی پارٹنرز بھی شریک تھے۔ ایسی ایک ریسرچ میں تو امریکا کی ٹیکساس یونیورسٹی کے زیر تحت گیلواسٹن نیشنل لیبارٹری بھی شامل تھی اور اس نے ریسرچ کے لیے بنیادی سرمایہ فراہم کیا تھا۔
ان تمام حقائق کے سامنے آنے کے باوجود اس کا حتمی طور پر تعین نہیں کیا جا سکا ہے کہ دنیا بھر میں یہ مہلک وبا حادثاتی طور پر ووہان لیبارٹری سے نہیں پھیلیہے۔ رواں برس جنوری میں ایک اور سائنسی جریدے ‘سائنس‘ نے اُس چینی حکومتی وضاحت پر سوال اٹھائے تھے، جس میں بیان کیا گیا تھا کہ وائرس کسی جانور سے ووہان کی تازہ گوشت کی مارکیٹ (Wet Market) سے انسانوں میں منتقل ہوا ہے۔ اسی طرح انتہائی معتبر سائنسی ریسرچ کے میگزین ‘لانسیٹ‘ نے اپنی تحقیقی رپورٹ میں واضح کیا کہ کووڈ انیس کی وبا سے علیل ہونے والے ابتدائی اکیالیس افراد میں سے تیرہ تو ووہان کی مارکیٹ میں گئے ہی نہیں تھے۔
اس بات کا اندازہ لگایا گیا ہے کہ کورونا وائرس کی نئی قسم سے گزشتہ برس نومبر میں سب سے پہلا انسان علیل ہوا تھا اور اُس شخص کا بھی کوئی تعلق ووہان کی ویٹ مارکیٹ سے ثابت نہیں ہوتا۔ یہ بات امریکا کی جورج ٹاؤن یونیورسٹی کے متعدی امراض کے سینٹر سے منسلک پروفیسر ڈینیئل لُوچی نے ایک جریدے ‘سائنس اسپیکس‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے بتائی تھی۔
ایک اور بات اس وائرس کے حوالے سے اہم خیال کی گئی ہے کہ ووہان انسٹیٹوٹ آف وائرولوجی کی سینیئر محقق شی ژینگلی سے جڑی ہے۔ ان کی چمگادڑوں میں پائے جانے مختلف وائرس پر ریسرچ اہم سائنسی جریدوں میں شائع ہو چکی ہے۔ انہوں نے جریدے ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ کو بتایا تھا کہ وہ چمگادڑوں کا فضلہ اکھٹا کرنے کے لیے چین میں مختلف مقامات پر واقع کم ز کم اٹھائیس غاروں میں گئی تھیں۔ سائنسی حلقے انہیں ایک اہم حوالہ خیال کرتے ہیں لیکن اس تناظر میں پروفیسر شی ژینگلی نے کوئی وضاحت ابھی تک نہیں دی ہے۔
کورونا وائرس کی نئی قسم کا پھیلاؤ ایک مشکل اور حل طلب پیچیدہ معاملہ خیال کیا جا رہا ہے۔ سائنسی اور سیاسی حلقوں میں اس موضوع پر بحث و تمحیص کا معاملہ ابھی جاری ہے۔