ایران (اصل میڈیا ڈیسک) ایرانی وزارت صحت کے ایک سینیر عہدیدار علی رضا رئیسی نے کہا ہے کہ اس بات کے اشارے ملے ہیں کہ قُم شہر میں کرونا وائرس وہاں پر زیرتعلیم بعض چینی طلباء اور چینی ملازمین کے ذریعے پھیلا ہے۔
انہوں نے بدھ کے روز ایک ویڈیو کانفرنس کے دوران نیم سرکاری خبر رساں ادارے ‘ایسنا’ کو بتایا کہ قم میں کرونا کا پہلا کیس سامنے آنے کے بعد وزارت صحت کی ٹیم اس وباء کے وہاں پہنچنے کے اسباب کا مطالعہ اور تحقیق کررہی ہے۔ یہ ٹیم اس نتیجے تک پہنچی ہے کہ قم میں یہ وائرس چینی طلباء اور وہاں پرکام کرنے والے بعض ملازمین کے ذریعے ہی پہنچا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہاں چینی کارکن ہیں جو فروری کے مہینے کے دوران چین گئے پھر واپس آئے۔ اس کے علاوہ قم میں چینی طلباء بھی موجود ہیں جن کا چین آنا جانا رہتا ہے۔
اگرچہ رئیسی نے ان طلبا کی نوعیت کی وضاحت نہیں کی لیکن سابق عہدیداروں نے پہلے بھی یہ بات کی ہے کہ “مصطفی انٹرنیشنل یونیورسٹی” میں تعلیم حاصل کرنے والے سیکڑوں چینی مسلمان طلباء کرونا وائرس ایران منتقل کرنے کی وجہ بنے ہیں۔
24 فروری کو’ایسنا’ نیوز ایجنسی نے مشہد شہر میں یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز کے سربراہ محمد حسین بحرینی کے حوالے سے نقل کیا کہ “قُم کے دینی مدارس میں زیر تعلیم 700 چینی طلباء سمیت غیر ملکی طلباء کی ایک بڑی تعداد زیرتعلیم ہے۔ یہ طلباء ہی ایران میں وائرس کے پھیلاؤ کی ایک وجہ ہیں۔ تاہم بعد ازاں انہوں نے اپنے اس بیان کی تردید کی اور کہا کہ ان کے بیان کو غلط رنگ دیا گیا۔
اسی دوران ایران میں سنی مسلمانوں کے نمائندہ مذہبی رہ نما اور صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت زاھدان کی اہم شخصیت شیخ عبدالحمید اسماعیل زئی نے کہا تھا کہ مصطفیٰ انٹرنیشنل یونیورسٹی میں زیر تعلیم غیرملکی طلباٰ ہی ایران میں کرونا وائرس لانے کے ذمہ دار ہیں۔
بعد میں یونیورسٹی نے ایک بیان جاری کیا جس نے علامہ اسماعیل زئی کے بیانات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں “غیر متوازن” قرار دیتے ہوئے اس وائرس کو پھیلانے میں چینی طلبا کے ملوث ہونے کی تردید کی تھی۔