جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) دنیا بھر میں کورونا وائرس کے متاثرین کی تعداد چھیالیس ملین سے زائد ہو گئی ہے جبکہ لگ بھگ بارہ لاکھ افراد اس وبائی مرض کی وجہ سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ کئی یورپی ممالک میں پیر سے پھر جزوی یا مکمل لاک ڈان نافذ کیا جا رہا ہے۔
بیشتر یورپی ممالک کے نقش قدم پر چلتے ہوئے برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے بھی اپنے ملک میں چار ہفتوں کے لاک ڈان کا اعلان کر دیا ہے۔ جانسن نے ہفتے کی شب بتایا کہ ملک گیر سطح پر یہ جزوی لاک ڈان دو دسمبر تک جاری رہے گا۔ اس دوران تمام غیر ضروری اشیا کی دکانیں بند رہیں گی جب کہ اسکول اور یونیورسٹیاں کھلے رہیں گے۔ تعمیرات اور پیداوار سے متعلق کاروبار بھی جاری رہیں گے۔ ریستورانوں اور شراب خانوں کو کھلا رکھنے کی اجازت ہو گی مگر وہ اپنے ہاں صارفین کو کھانے پینے کے لیے کچھ پیش نہیں کر سکیں گے بلکہ مہمانوں کو اشیائے خورد و نوش صرف ساتھ لے جانے کی اجازت ہو گی۔ ایک سینئر برطانوی وزیر نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس لاک ڈان کی مدت میں آئندہ توسیع بھی کی جا سکتی ہے۔
جرمنی میں بھی پیر دو نومبر سے دوبارہ لاک ڈان کا نفاذ عمل میں آ رہا ہے۔ کئی دیگر یورپی ملکوں میں بھی ایسے ہی یا ان سے ذرا مختلف اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر فرانس اور اسپین میں پچھلے چند دنوں سے رات کا ملک گیر کرفیو نافذ ہے۔ تاہم اسپین میں کورونا وائرس کے پھیلا کو محدود رکھنے کے لیے نافذ کردہ پابندیوں کی مخالفت میں وسیع تو عوامی رد عمل سامنے آ رہا ہے۔ جمعے اور ہفتے کی درمیانی رات شروع ہونے والے احتجاجی مظاہرے ہفتے اور اتور کی درمیانی شب بھی جاری رہے۔
حکام نے شر پسندی اور سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچانے کے الزام میں بتیس افراد کو حراست میں لے لیا۔ یہ مظاہرے اسپین کے کئی بڑے شہروں میں ہوئے اور اکثر مقامات پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان پر تشدد جھڑپیں بھی ہوئیں۔ اسپین میں پچھلے ہفتے سے رات کے وقت ملک گیر کرفیو نافذ ہوتا ہے۔ اسپین میں کورونا کے متاثرین کی تعداد گیارہ لاکھ سے زائد ہے جبکہ وہان اب تک 35 ہزار افراد اس وائرس کے ہاتھوں ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔
اسی دوران دنیا بھر میں کورونا وائرس کے متاثرین کی تعداد چھیالیس ملین سے زائد ہو گئی ہے جبکہ لگ بھگ بارہ لاکھ افراد اس وبائی مرض کی وجہ سے ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔ عالمی سطح پر امریکا بدستور کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے، جہاں متاثرین کی تعداد نوے لاکھ سے زائد جب کہ ہلاک شدگان کی تعداد دو لاکھ تیس ہزار سے متجاوز ہو چکی ہے۔
ایک طرف دنیا کے بیشتر ممالک کو کورونا کی دوسری لہر کا سامنا ہے تو دوسری طرف آسٹریلیا میں پچھلے پانچ دنوں سے مقامی سطح پر کورونا وائرس کی منتقلی کا ایک بھی نیا کیس سامنے نہیں آیا۔ ایسا پانچ ماہ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے۔ کئی شہروں میں پابندیاں نرم کی جا رہی ہیں۔ آسٹریلیا میں اب تک کورونا کے لگ بھگ ستائیس ہزار متاثرین سامنے آئے ہیں جبکہ ہلاکتیں نو سو کے قریب ہیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے بھی اتوار کے روز اعلان کیا کہ ان کے ملک میں کورونا کے کیسز میں کمی ہو رہی ہے۔ تل ابیب میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کئی پابندیوں کے خاتمے یا معطلی کا اعلان بھی کیا۔ اسرائیل میں بچوں کے اسکول بھی اب دوبارہ کھل گئے ہیں۔