کرونا وائرس اور انسانیت کا دشمن بل گیٹس

Coronavirus

Coronavirus

تحریر : ایم آر ملک

کرونا وائرس کا خمیر کہاں سے اُٹھا؟ یہ وہ سوال ہے جسے کھوجنے کی ضرورت تک محسوس نہ کی گئی ،زندگی کی سانسونں کو روکنے والی قوت کا نام تک لینے سے دنیا بھر کے دانشور جانے کیوں گریزاں ہیں ؟

سرمایہ دارانہ نظام میں سرمایہ دار کا کردار اتنا غلیظ ہوتا ہے کہ وہ سرمایہ اور منافع کی ہوس میں ایک ایسے گدھ کا کردار ادا کرتا ہے جو مردوں تک کا گوشت نوچنے سے گریز نہیں کرتا انسانیت کو بیماری ،بھوک ،افلاس کے ہاتھوں یر غمال بنا کر وہ اذیت کی ایک ایسی راہ متعین کرتا ہے کہ مفادات کی اس بساط تاحد ِ نظر وحشت ہی وحشت اور درندگی کا راج ملتاہے بل گیٹس اس وقت دنیا کا سب سے امیر ترین یہودی سرمایہ دار ہے یہ یہودی تھنک ٹینک کے ان سترہ افراد میں شامل ایک ایسا اہم مہرہ ہے جو کرہ ارض پر یہودی ایجنڈہ و پالیسیاں مسلط کرنے میں ہراول کا کردار ادا کر رہا ہے۔

کرونا وائرس اس کی زندہ مثال ہے یعنی جیسے ہی کرونا وائرس دنیا میں پھیلنا شروع ہوا سب کی انگلیاں یہودی خفیہ تنظیموں پر اُٹھ گئیں اور بل گیٹس کے کردار پر کھل کر تنقید شروع ہو گئی اس بیماری کی آڑ میں فارما سیوٹیکل کی صنعت کے ناجائز منافعوں کو خوب ترقی ملی فارما سیوٹیکل کمپنیز کا سالہا سال سے ذخیرہ شدہ مال لمحوں میںنہ صرف خریدار کے ہاتھوں میں چلا گیا بلکہ ان مصنوعات کی قلت پیدا ہوگئی جو کرونا وائرس کے ساتھ منسلک تھیں اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ جنگ کے دوران دو متحارب فریق دھڑا دھڑ مقابلے کی دوڑ میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے میں ہتھیار خریدتے چلے جاتے ہیں حالانکہ اس جنگ کی کڑیاں بھی ان ممالک سے ملتی ہیں جو اسلحہ سازی کی صنعت میں کثیرسرمایہ لگا کر جنگی ہتھیار تیار کر چکے ہوتے ہیں اسی طرح ادویات ساز انڈسٹریز کی ادویات تب ہی فروخت ہوں گی جب لوگ کسی بیماری کا شکار ہوں گے ۔منرل واٹر کی مثال ہی کو لیں یہ پانی تب بکے گا جب عام پانی گندہ ہوگا۔

سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں محبوس دنیا بھر کا صحت کا نظام جو کالے دھن اور بد ترین جرائم پر مبنی ہے قیمتی جانوں کی لاشوں پر اس کے منافعوں میں بے دریغ اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے اب کرونا وائرس جب کرہ ارض پر پھیلا تو یونائٹیڈ کنگڈم (UK)کی برٹش انسٹٰی ٹیوٹ پر انگلیاں اٹھنا شروع ہو گئیں (Bir Bright)نامی فائونڈیشن نے کرونا وائرس کو رجسٹرڈ کرایا یہ وہیفائونڈیشن ہے جس کے بارے میں بعد میں ایک پریس ریلیز سامنے آئی کہ بل گیٹس اور اس کی بیوی نے اس فائونڈیشن کو اس وائرس کی تیاری کیلئے پیسہ دیا تھا یہ پریس ریلیز 2018میں سامنے آئی اس وائرس کو پہلے باقاعدہ لیبارٹری میں تیار کیا گیا

ماضی کے اوراق کو کنگالیں تواولاًیہ سوال جنم لیتا ہے کہ انسانیت دشمن یہ وائرس لیبارٹری میں کس مقصد کے تحت تیار کیا گیا ؟دوم اس کو پھیلانے کی اجازت کے پس پردہ کیا مقاصد کار فرما تھے ؟مذکورہ بالا سوالات کے جواب میں (Bir Bright)کی جانب سے ”ڈاکٹر ایریکا ”نے کہا کہ” اس وائرس پر ہم نے تجربہ کیا اور بل گیٹس نے اس کیلئے رقم فراہم کی یہ بنیادی طور پر ”ایویان کرونا وائرس ”تھا ہم نے اس کا مطالعہ کیا کرونا وائرس در اصل تمام وائرس کا فیملی نام ہے جس کو رجسٹرڈ کرایا گیا ہم نے اس کا باقاعدہ مطالعہ کیا کہ یہ کس طرح چکن اور چکن سیلز کے اندر پھیلتا ہے۔

اس واقعہ کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کے اندر جہاں بھی ویکسیئن کا معاملہ آتا ہے بل گیٹس پیش پیش ہوتا ہے اور اسی کانم ویکسیئن کے ساتھ جڑا ملتا ہے انڈیا میں بل گیٹس کی ویکسیئن کو جگہ جگہ بین کردیا گیا ہے کہ بل گیٹس فائونڈیشن کی وجہ سے وہاں لوگ مرے اب اس ساری صورت حال میں انسان دوست طاقتیں اور انسانیت کیلئے کام کرنے والے دانشور یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ایک وائرس جو 2015میں ایک لیبارٹری میں باقاعدہ تیار کیا گیا اور پھر رجسٹرڈ بھی ہوا اس کی تیاری میں رقم فراہم کرنے والے کے ہی انسانیت کو تباہ کرنے کے مذموم مقاصد تھے اور یہی نہیں بعد ازاں یہ دنیا بھر میں پھیلا دیا گیا کیا اس کا ذمہ دار ایک یہودی سرمایہ دار بل گیٹس نہیں یہی نہیں دنیا بھر کی بڑی فارما سیوٹیکل انڈسٹریز کے تانے بانے بھی بل گیٹس سے ہی جڑے ہوئے ہیں اس سوال کا کرہ ارج کے ہر فرد کو جوابدہ بل گیٹس ہی ہے کہ اس نے اس وائرس کی تیاری میں کثیر رقم کیوں فراہم کی ؟اور اس کو پھیلانے اور انسانیت کی تباہی میں ہراول کا کردار کیوں ادا کیا ؟جبکہ (Bir Bright)کے کرتا دھرتا اپنا موقف دے چکے اس سے قبل روس نے بل گیٹس پر الزامات لگائے اور رشیئن سائنسدانوں نے بل گیٹس کے باقاعدہ کرتوت ننگے کئے۔

دنیا کا سب سے امیر ترین فرد ہونے کے باوجود بل گیٹس کے شیطانی ذہن میں سرمائے اور منافع کی ہوس اس حد تک سرایت کر چکی ہے کہ بازار مصر کے بیو پار بھی اس کے آگے ہیچ دکھائی دیتے ہیں صد حیف ایسے سرمایہ داروں کے چہرے پر پڑا نقاب نوچنے کی اشد ضرورت ہے جو انسانی جان کی قیمت کو چند سکوں کے عوض تولتے ہیں اور مزے کی بات یہ کہ عالمی ادارے تک جو انسانیت کیلئے کام کرنے کا دم بھرتے ہیں بل گیٹس جیسے سرمایہ داروں کی ذہنی منطق کی غلامی میں پیش پیش ہیں بل گیٹس نے کہا کہ ”کم از کم چھ ماہ اس بیماری کو جانے میں لگیں گے اور اس سے تین کروڑ لوگ مریں گے ہمیں آنے والے وقت کیلئے تیار رہنا چاہیئے ”اقوام متحدہ کے ادارے (WHO)نے بھی اسی منطق کو اپنایا ہے کہ اس بیماری کے خاتمہ کیلئے چھ ماہ درکار ہوں گے۔

کرونا ویکسین کی بڑے پیمانے پر تیاری اور اسے کرونا سے بچائو کے نام پر دنیا بھر میں تقسیم کرنے کیلئے بل گیٹس اربوں ڈالر خرچ کرنے کیلئے پر تول چکا ہے یہ اس موقف کا شاخسانہ ہے جو بل گیٹس نے 2015میں دیا کہ دنیا میں عنقریب ایک وبا جنم لینے والی ہے مگر دنیا اس وبا کیلئے تیار نہیں اسی تناظر میں بل گیٹس نے کرونا کی ویکسین پر اربوں ڈالر خرچ کرنے کا اعلان کردیا ہے جس کے تحت اس وائرس کے خلاف تیار کی جانے والی 7بہترین ویکسینز کیلئے فیکٹریوں کی تعمیر کی جارہی ہے ان فیکٹریوں پر بھی اربوں ڈالر خرچ ہوں گے بل گیٹس نے اپنے پروگرام کو حتمی شکل دینے کیلئے ایک نجی ٹیلی ویژن کے شو میں باضابطہ طور پر کہا کہ ”ان کا فلاحی ادارہ ”گیٹس فائونڈیشن ”کرونا وائرس اور اس کی وبا کے خلاف لڑنے کے حوالے سے حکومتوں سے زیادہ اہلیت اور تیزی سے کام کرسکتا ہے۔

ہمارا ادارہ وبائی امراض پر قابو پانے کے حوالے سے مہارت رکھتا ہے اور ہم نے وبا کے بارے میں سوچ رکھا تھا اور ہم ویکسین کی تیاری کے حوالے سے زیادہ تیار ہیں ہماری سرمایہ کاری تیاری کے عمل کو تیز کر سکتی ہے ”اسی ضمن میں بل گیٹس نے یہ بھی کہا ہے کہ ”وہ چاہتے ہیں دنیا میں ہر شخص کو میری بنائی ہوئی ویکسین لگائی جائے اورکرہء ارض کے جس فرد کو میری ویکسین لگے گی اسے ڈیجیٹل سرٹیفیکیٹ ایشو کیا جائے جس شخص کو ڈیجیٹل سرٹیفیکیٹ ایشو نہیں ہوگا اسے دنیا میں کام کرنے کی اجازت نہ دی جائے ”بل گیٹس کی اس دھمکی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ”کرونا وائرس اور لاک ڈائون کے بعد کی دنیا اب نارمل نہیں ہوگی یہ مت سمجھنا کہ وائرس ختم ہو کر زندگی نارمل ہو جائے گی جب تک دنیا کی سات بلین کی آبادی میری بنائی ہوئی ویکسین نہیں لے گی یہ خطرہ نہیں ٹلے گا ” (جاری ہے)

M.R.Malik

M.R.Malik

تحریر : ایم آر ملک