زندگی بحال ہونا شروع ہو گئی ہے ۔ گلی محلے ، مارکیٹیں ، سڑکیں پھر سے آباد ہو رہے ہیں۔ کورونا نے جو پہیہ جام کر دیا تھا وہ دوبارہ سے چل پڑا ہے ۔ یقینا یہ خوش آئند امر ہے۔ وگرنہ اس نے ہمیں ہر لحاظ سے پریشان اور متاثر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ کرونا وائرس کی وجہ سے جہاں ہماری سوسائٹی پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں ، وہیں بے شمار مثبت عوامل بھی سامنے آئے ہیں ۔ ہم نے کورونا سے بہت کچھ سیکھ لیا ہے۔
معلوم ہو ا کہ ہمیں بیماریاں کیسے لگتی ہیں ۔ کورونا نے ہمیں سکھایا کہ چھوٹی چھوٹی بیماریوں کیلئے ہسپتال کا رخ کرنے اور وہاں سے نئے جراثیم ساتھ لے آنے کی بجائے گھر رہ کر بیماری کو شکست دینی ہے ۔ کرونا نے ہم میں ان بیماریوں سے احتیاط کا شعور پیدا کیا اور حفظان صحت کے اصول اپنانے کی عادت بن گئی ۔ اب تو ہمارے بچے تک اپنی صفائی کا خیال اور دوسروں کی صفائی بارے حساسیت رکھتے ہیں۔
کرونا نے بتایا کہ جب بھی باہر سے واپس آئیں ، فوراً ہاتھ منہ دھوکر اور کپڑے تبدیل کر کے جراثیم سے چھٹکارا پائیں ، پھر کوئی دوسرا کام کریں ۔ شعور اس حد تک آ گیا ہے کہ اب گھروں میں کام کرنے والی ماسیوں کے آنے پر سب سے پہلے ان کے ہاتھ پائوں دھلوائے جاتے ہیں تب جا کر انہیں گھر کا کام شروع کرنے کی اجازت ملتی ہے ۔
کورونا نے سکھایا کہ جب کوئی چھینک مارے تو اپنے منہ پر ہاتھ رکھے ۔ نہ صرف یہ، بلکہ چھینکنے کے بعد فی الفور ہاتھوں کو دھوئے ۔ اگر کسی کو زکام ہے تو اخلاقی طور پر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ خود دوسروں سے فاصلہ رکھے ۔
کرونا نے ہم پر آشکار کیا کہ ہم فاسٹ فوڈ اور جنک فوڈز کے بغیر بھی زندہ رہ سکتے ہیں ۔ ہم میں بے جا خریداری اور فضول خرچی سے اجتناب کی عادت پڑی اور کم وسائل میں رہنا آگیا ۔
ہمیں احساس دلایا کہ غریب آدمی اپنی بیماری کی بجائے بچوں کی بھوک سے زیادہ ڈرتا ہے ۔ اسی تناظر میں ہم میں کمزور طبقات کو تلاش کر کے ان کی مدد کرنے کا جذبہ پیدا ہوا ۔ کورونا نے ہمیں اپنے ، اور اپنوں کے روپ میں پرائے کی پہچان کروائی ۔ نفسا نفسی کے اس دور اور تلخ ایام و حالات میں بہت سے رشتوں کو بے نقاب کیا اور ہمیں بتایا کہ ہم کس کے ساتھ کیسے ہیں اور کون ہمارے ساتھ کیسا ہے ؟
کورونا نے ہمیں ایڈوانس کیا اور ٹیکنالوجی کے استعمال کی طرف رغبت دلائی ۔ یوں ہمیں متعلقہ موبائل ایپس سے بھی تعارف حاصل ہوا اور گوگل کا وسیع استعمال بھی کرنا آیا ۔ اساتذہ کیلئے آن لائن ٹیچنگ ایک نیا تجربہ ثابت ہوا جس سے نہ صرف ان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی سے استفادہ کا شوق پیدا ہوا بلکہ اپنے طلباء کو بھی اس کی اہمیت کا احساس دلانے پر مجبور ہوئے کہ اگر ہم جدید ٹیکنالوجی پر مہارت حاصل نہیں کریں گے تو ترقی کی دوڑ میں مزید پیچھے چلے جائیں گے ۔
کرونا نے پیپرلیس انوائرمنٹ سے آگاہی دی اور بتایا کہ آن لائن کلاسز ، لائیو میٹنگز ، ویڈیو کانفرنسز ، آن لائن بلنگ پیمنٹ ، آن لائن خریداری وغیرہ کے ذریعے توانائی ، وقت اور اضافی خرچہ سب بچ سکتے ہیں ۔ ان کاموں کیلئے اب آپ کو باہر جانے کی ضرورت نہیں رہی ۔ ٹیکنالوجی کی وجہ سے یہ تمام امور آپ کی صرف ایک کلک سے دوری پر ہے ۔
کرونا نے یہ بھی سکھایا کہ ہم جہاں کہیں بھی ہوں، کام کرنے کے قابل ہیں۔ ہم کسی بھی جگہ سے اپنے اداروں کو کام کر کے دے سکتے ہیں ۔ یعنی دفتر نہ بھی ہوں تو بوقت ضرورت آن لائن ورک کر کے باس کو خوش کیا جا سکتا ہے۔
کورونا نے یہ بھی دکھایا کہ طاقت بذات خود کچھ نہیں ، طاقتور سے طاقتور بادشاہ بھی اصل دنیا و آخرت کے بادشاہ کے بھیجے گئے ایک چھوٹے سے جرثومے کے آگے کیسے بے بس ہو جاتا ہے۔
کورونا نے بتایا کہ ہم جو بھاگ بھاگ کر بیرون ملک سہانے مستقبل کی تلاش میں جاتے ہیں ، ان ملکوں پر برا وقت آنے کی صورت میں کسی بھی وقت ہمیں ان نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑ سکتے ہیں ۔ محفوظ ہے تو صرف اپنا ہی ملک … ایسے برے وقت سے بچنے کی خاطر معاشی طور پر مستحکم ہونے کیلئے اس نے ہمیں خود کو تیار کرنے کا سبق دیا ۔ کورونا نے ہمیں اپنی فیملی سے قریب کیا اور سوچوں کو نئی سمت دی ۔ بتایا کہ ہماری فیملی کو ہماری ضرورت ہے ، اور دنیا داری کے جھنجھٹ سے ان کیلئے فرصت نکالنا کس قدر نعمت ہے ۔
غرض اس وائرس نے اگر ہمیں گھائل کیا ہے تو اس سے ہم نے بہت کچھ مثبت بھی سیکھا جو یقینا ہمارے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب کرے گا ۔ کورونا نے ہمیں ماضی کے روایتی معمولاتِ زندگی کے مقابلے میں ایک نیا عزم دیا ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہم ان سیکھے گئے اسباق اور تجربات کو اپنے لئے کس قدر سودمند ٹھہرا پاتے ہیں۔