عالمی وباء یعنی کورونا وائرس کی وجہ سے پاکستان میں 24 مارچ سے لاک ڈاﺅن کیا گیا تھاجس کے تحت دفعہ 144 کا نفاذ عمل میں لاتے ہوئے ملک بھر کی تالہ بندی “کردی گئی جوکہ تاریخ میں پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے پھرکچھ روز قبل حکومت نے اِس لاک ڈاﺅن میں نرمی کرتے ہوئے اشیاءخوردونوش کے علاوہ تعمیرات سمیت چند شعبوں کو شام 5بجے تک کام کرنے کی مشروط اجازت دی ہے۔ لاک ڈاﺅن سے ایک روز قبل وزیراعظم پاکستان محترم عمران خان نے اپنے قوم سے خطاب میں عوام کو ملک بھر میں کسی قسم کا لاک ڈاﺅن نہ کرنے کی یقین دہانی کروائی لیکن اگلے ہی روز پورا پاکستان”کرفیو“ کا منظر پیش کرنے لگا۔
لاک ڈاﺅن کی زد میں ملک بھر کی عدالتیں بھی آئی۔ اِس سلسلہ میںصرف ”ضروری نوعیت“ کے معاملات کو دائر کرنے اور سننے کی اجازت دی گئی ہے۔ بڑے بڑے شہروں جہاں سینکڑوں جج صاحبان دیوانی و فوجداری مقدمات کی سماعت کرتے اور ہزاروں وکلاءاِن مقدمات کی پیروی کرتے تھے اب وہاں ایک درجن سے بھی کم جج صاحبان بطورِ ڈیوٹی جج اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔
اِس عرصہ کے دوران جج صاحبان جوکہ سرکاری ملازم ہیں بغیر کام کرکے بھی تنخواہ لے رہے ہیں ، مگر وکلاءکی بہت بڑی تعدادایک بیروزگارکی طرح اِس لاک ڈاﺅن کے ختم ہونے کا انتظار کررہی ہے ۔چند بار ایسوسی ایشنز اوربار کونسلوں نے بھی اپنی برادری کیلئے ”ریلیف فنڈز“ کا قیام عمل میں لاتے ہوئے وکلاءکی مالی معاﺅنت کی ہے ۔اِسی طرح لاہور بار ایسوسی ایشن نے اپنی مدد آپ کے تحت چند مخیر ممبران اور دوسرے ذرائع کے تعاون سے ایک ”ریلیف فنڈز“کے ذریعے اپنے سینکڑوں ممبران کی اِس مشکل وقت میں مدد کی مگر اِس موقع پر پنجاب بار کونسل نے اپنی ہی وکلاءبرداری سے ”سوتیلی ماں“ جیسا سلوک کیا ہے ۔اِسی تناظر میں کابینہ لاہور بار ایسوسی ایشن نے وائس چیئرمین پنجاب بارکونسل کو ایک خط تحریر کیا ہے ۔ جس میں کابینہ نے اپنی کارکردگی کا حوالہ دیتے ہوئے بارکونسل کے اربابِ اختیار کوایک بہترین تجویزدی ہے کہ Benevolentفنڈکی خطیر رقم جوکہ بارکونسل کے پاس امانتاً موجود ہے۔اِس رقم میں سے ہر وکیل کوفی کس ایک لاکھ روپے بطور قرضِ حسنہ اقساط میں واپسی کی شرط کے ساتھ دیا جائے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ بارکونسل اِس تجویز پر کتنا عمل کرتی ہے ۔
ویسے یہ پنجاب بارکونسل کے الیکشن2020-25 کابھی سال ہے جس میں ممبران کا انتخاب ”ہر وکیل “اپنے ووٹ کی طاقت سے کرتا ہے اور یہ الیکشن ہر پانچ سال بعد ہوتے ہیں ۔موجود ہ ممبران کی ایک بڑی تعداد اپنی ”سابقہ کارکردگی“ کی بنیاد پر دوبارہ الیکشن میں حصہّ لینے کی خواہش مند نظر آرہی ہے ۔ اگراِن ممبران سے اُن کی پانچ سالہ کارکردگی کے بارے میں سوال کیا جائے تو وہ بذریعہ ”نوٹس“ کوئی ایسا حکم صادر فرمادیتے ہیں کہ کوئی بھی اِن سے کسی قسم کا سوال یا آڈٹ کروانے کا مطالبہ کرنے کی جرا ¾ت ہی نہیں کرتا۔
لاہور ہائیکورٹ نے 17اپریل کو ایک نوٹیفکیشن جاری کیا ہے جس کے تحت 20اپریل سے ماتحت عدالتوں میں”ضروری نوعیت“ کے معاملات کے ساتھ اب ہر قسم کے مقدمات کی ”صرف دائرگی “ہوسکے گی ،آئندہ کے ڈیوٹی روسٹر میںخواتین ججوں کا نام بھی شامل ہوگا، کام کی نوعیت میں اضافہ ہونے کے سبب ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے پاس اختیار ہوگا کہ وہ ڈیوٹی ججوں کی تعدادبھی بڑھا دیں اور دورانِ سماعت کسی بھی کمرہ ِ عدالت میں چھ سے زائد وکلاءصاحبان کا داخلہ ممنوع ہوگا۔
میری ذاتی رائے میں لاک ڈاﺅن کے دوران ”الیکڑانک میڈیا“ کے منفی کردار نے کورونا وائرس کے معاملہ میں کافی ”خوف وہراس“
پیدا کیا ہے جس کی وجہ سے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والا شخص ”مالی مسائل“ کا شکارہوگیا ہے ۔اِسی طرح وکلاءبرادری بھی اِن حالات میں کافی متاثر ہوئی ہے ۔جن کی دادرسی حکومتِ وقت بھی کرنے سے قاصر ہے جبکہ اِس کے برعکس موجودہ حکومت ”صحافی تنظیموں“ کی مکمل مالی معاﺅنت کرنے میں مصروف عمل ہے۔
آخر میں ،میںاپنے منتخب نمائندو ں سے یہ امید رکھتا ہوں کہ وہ اِس مشکل گھڑی میں اپنے برداری کی آواز بنے گے اور اپنے ”سفید پوش“ ساتھیوں کی مالی معاﺅنت کا فریضہ بھی سرانجام دیں گے اوراِس کے ساتھ ساتھ بہت ہی جلد ملک بھر میں عدالتی نظام دوبارہ بحال کروانے میں کامیاب ہوجائیںگے۔جس سے اللہ پرتوکل رکھنے والوں کا پیشہ یعنی ”وکالت“ دوبارہ فعال ہوجائے گا۔انشاءاللہ