اللہ تعالی قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ” اگر بستیوں کے لوگ کے ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اورزمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے” (الاعراف:٦٩) مطلب کہ اگر لوگ اللہ کو اپنا رب مانتے۔ رسولوں پر ایمان لاتے۔اور تقویٰ یعنی گنائوں سے بچنے کی کوشش کرتے۔ تو اللہ آسمان سے رزق ناز ل کرتا اور زمین اپنے خزانے اُگل دیتی۔ یعنی آسمان سے پانی برستا ، ڈیموں میں پانی کو ذخیرہ کیا جاتا۔ نہروںسے پانی زمینوں کو جاتا۔ زمین میں وافر مقدار میں اجناس پیدا ہوتیں۔ زمین سے تیل اور سونا جیسی معددنیات نکلتی اور ملکوں میں خوشحالی ہوتی۔ امن وامان ہوتا۔ انسان قدرتی آفت، کورونا وائرس اور دوسری موذی مرضوں سے محفوظ ہوتے۔
اگر انسان اللہ سے بغاوت کا راستہ اختیار کرتا ہے تو پھراللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے”اُس بڑے عذاب سے پہلے ہم اِسی دنیا میں(کسی نہ کسی چھوٹے) عذاب کا مزاانھیں چکھاتے رہیں گے شاہد کہ یہ( اپنی باغیانہ روش سے)باز آجائیں”( السجدة۔ ٢١)۔ یعنی روز جزا قیامت کے عذاب سے پہلے کورونا جیسی بیماریوں میں مبتلا کرنا۔ آپ دیکھیں کہ چین نے الیغور مسلمانوں پر پہاڑ سے زیادہ مظالم ڈھائے ہیں۔ اللہ کی مخلوق انسانوں پر حیوانوں سے بھی زیادہ ظلم کیا۔ ہم نے کچھ پوسٹس فیس بک پر دیکھیں جس میں چینی صدر، اب ندامت کا اظہار کرتے ہوئے ،سر پر مسلمانوں کی طرح ٹوپی پہنے، مسجد کے اندر امام مسجد کے ساتھ مل کر اللہ سے دعائیں مانگ رہا کہ اللہ، کورونا وائرس کے عذاب سے چینی قوم کو بچا۔
مسلمانوں کو خاص کر ہدایت ہے کہ قدرتی آفات اور قحط سالی کے موقعہ پر، اپنے بال بچوں اور مویشیوں سمیت کھلے میدان میں آئیں۔ اللہ کے سامنے دو رکعت نماز ادا کر کے اللہ سے اپنے گنائوں کی معافی مانگیں اور عذاب ٹلنے کی دعا کریں۔مگر مسلمان اللہ سے مانگنے کے بجائے ،غیر ملکوں کی حکومتوں اور بین الاقوامی اداروں سے امداد مانتے ہیں۔ اکبر الہ آبادی نے مسلمانوں سے مخاطب ہو کر، اپنے ایک شعر میںکہتے ہیں:۔
مصیبت میں بھی یاد خدا آتی نہیںان کو دعاء منہ سے نہ نکلی پاکٹوں سے عرضیاں نکلیں
قرآن شریف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو وجود بخشنے سے پہلے ازل سے ابد تک پیداہونے والوںکی روحوں کو پیدا کر کے ان سے کہا تھا کہ ” کیامیں تمہارارب نہیں ہوں سب انسانوں نے کہا آپ ہمارے رب ہیں ہم اس بات کی گواہی دیتے ہیں”۔( الاعراف۔ ١٧١۔١٧٢)۔رب کے معنی ہدایت دینے والا۔ پالنے والا۔ رزق دینے والا۔ نگہداشت کرنے والا۔ یعنی صحت و تندستی کی زندگی دینا والا۔ پھر اللہ نے انسان کو وجود بخشا ۔ پہلے سے موجود جنوں اور فرشتوں سے کہا کہ انسان کو سجدہ کرو یعنی انسان کی برتری کو مانوں۔ فرشتوں نے اللہ کے احکامات مانتے ہوئے آدم کو سجدہ کیا۔ ابلیس شیطان نے تکبر کیا اور انسان کو سجدہ کرنے سے انکار کیا ۔ اللہ نے اس کی باز پرس کی۔ کہا کہ تم نے میری حکم عدولی کیوںکی؟ شیطان نے عذر پیش کیا۔ آپ نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا۔ مجھے آگ سے پیدا کیا۔
میں اس سے برتر ہوں۔اللہ شیطان کے انکار پر اس سے ناراض ہوا۔ شیطان نے اللہ سے اس امر کی اجازت مانگی کہ وہ اللہ کے بندوں کو اللہ کے احکامات روکے گا۔ا للہ نے اسے صرف یہ اجازت دی کہ تو انسانوں کے دلوں میں صرف وسوسے ڈال سکے گا۔سبز باغ دکھا کر اللہ سے بغاوت کی طرف راغب کر سکے گا۔ کسی کا ہاتھ پکڑ کر اسے اللہ کا باغی نہیں بنا سکے گا۔ میرے نیک بندوں پر تیرا زور نہیں چلے گا۔ انسان کو بھی اس امر کی اجازت دی کہ وہ اپنی آزادمرضی سے اللہ کو اپنا رب مانے اور چاہے تو اللہ کا انکار کر دے۔ اس کے بعد اللہ نے انسان اور شیطان کو اپنی حکمت کے مطابق زمین پر بھیجا۔ اور کہا کہ قیامت تک تمھیں یہاں ہی رہنا ہے۔ اللہ نے انسان کو خلیفہ بنا کر زمین میں بھیجا۔ اللہ کی ساری کائنات کے زمینی حصہ پر انسان اللہ کے احکامات کو اللہ کے بندوں تک پہنچاے گا۔ ہدایت کے لیے اللہ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر وں کوبھیجا۔ آخر میں حضرت محمد صلی علیہ وسلم آئے۔رسولۖاللہ نے اللہ کے احکامات کے مطابق مدینہ کی اسلامی،فلاحی، جہادی ریاست قائم کی۔ جسے خلفاء راشدین نے اُسی طرح چلا کر دنیا کو دکھایا۔ پھر یہ حکومت ایک ہزار سال سے زیادہ ١٩٢٣ء تک ترک عثمانی خلافت قائم رہی۔
آج شیطان کے کہنے پر دنیا ،اللہ سے بغاوت پر چل رہی ہے۔طاقت ور کمزرو کے حقوق سلب کر رہے ہیں۔ عدل و انصاف نام کی کوئی چیز نہیں۔لوگوں کی آزادیا چھین لی گئی ہیں۔ معاشرے ظلم و زیادتی پر گامزن ہیں۔اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا ہے۔ بے حیائی عام ہو گئی ہے۔ زندگی کی گاڑی کا دوسرا پہیہ عورت جو صنف نازک ہے جس سے آگے
٢ نسل انسانی چلتی ہے۔اس کو بچوں کی نگہداشت اور گھر کی ملکہ سے باہر نکال کر فیکٹریوں میں مزدوری اور بازاروں میں کام کاج پر لگا دیا گیا۔عورت کو عریاں کر دیا گیا۔ ا س سے صرف جنسی تعلق رکھا جاتا ہے۔زنا عام ہوگیا ہے۔ہم جنس پرستی اور فعل قوم لوط کو آئین کا حصہ بنا دیاگیا۔یورپ اور امریکامیں سیکسی معاشرے کی وجہ سے چالیس فی صد حرامی بچے پیدا ہو رہے ہیں۔ انسانیت سسک رہی ہے ۔
اللہ کی بندگی جو انسانوں کی روحوں کے اندرشامل ہے۔ جسے اُوپر بیان کیا گیا ہے۔ جسے اللہ کے پیغمبر انسانوں کو یاد بھی کراتے رہے ہیں۔ جو قرآن اور رسولۖ اللہ کی سنت صورت میں اب بھی موجود ہے۔آج انسانیت اللہ سے بغاوت کر کے شیطان کے پیچھے چل رہی ہے۔ کیا اللہ کے احکامات سے ہٹ ایسے میں اللہ کی طرف سے عذاب کی شکل میںکورونا وائرس نہیں تو اللہ کے انعامات کی توقع کی جا سکتی ہے؟ اس کے علاوہ مسلمانوں کے شاندار دور حکومت سے خوف زدہ غیر مسلم ممالک مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑرہے ہیں کہ وہ دوبارہ غالب ہو کر اللہ کا کلمہ بلند نہ کریں۔کشمیر، بھارت،چین، برما،فلسطین،چیچنیا،بوسینیا،عراق، لیبیا،شام بلکہ دنیا میں ہر جگہ مسلمانوں کو مولی گاجر کی طرح کاٹ دیا گیاہے۔ اللہ کے بندوں پر ظلم کی انتہا ہوجائے تو کوروناوائرس جیسی بیماریاں آتی ہی رہیں گی۔ اس وقت کورونا دنیا کے پونے دو سو ملکوں میں پھیل چکا ہے۔ جس میں ایران بھی شامل ہے۔
ایران سے واپس آنے والے زائرین کی وجہ سے کورونا پاکستان میں داخل ہو چکا ہے۔اللہ کا شکر ہے کہ ابھی تک کو ئی موت واقع نہیں ہوئی۔ الحمد اللہ ہم مسلمان ہیں۔ ہمیں کورونا سے گھبرانا نہیں ہے۔ اس قدرتی آفت کا اللہ کے بھروصے پر اللہ کے احکامات پر عمل کر کے اس کا مقابلہ کرناچاہیے۔ اسلام میں موت کا ایک وقت لکھا ہوا۔ اس وقت سے پہلے اور نہ بعد میں موت آنی ہے۔ اسلام کے احکامات ہیں کہ جس جگہ ایسی مرض پیدا ہو اس جگہ سے باہر نہیں جانا چاہیے۔ اسلامی نظریاتی کونسل ، علماء اور وزیر اعظم پاکستان نے قوم سے خطاب میں جو مشورے دیے ہیں اُن پر عمل کرنا چاہیے۔ افوائوں پر کان دھرنے کے بجائے احتیاتی تدبیروں پر عمل کرنا ہے جو ہر روز میڈیا کے ذریعے بتائی جا رہی ہیں۔ زیادہ سے زیادہ عبادت کرنی چاہیے۔ اللہ سے معافی اور دعاء مانگنی چاہیے کہ اللہ کورونا وائرس کے عذاب سے پاکستان اور دنیا کے دوسرے ملکوں کومحفوظ فرمائے آمین۔