جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے مطابق کورونا وائرس جرمنی اور یورپ بھی پہنچ چکا ہے اور اشد ترین ضرورت اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنا ہے۔ میرکل نے یہ اپیل بھی کی کہ اب ہر کسی کو انفرادی ذمے داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔
وفاقی جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے آج بدھ گیارہ مارچ کو یہ بات برلن میں ایک پریس کانفرنس میں کہی، جس میں انہوں نے کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد سے اس جرثومے اور اس کی وجہ سے لگنے والی بیماری کووِڈ انیس کے حوالے سے پہلی بار اپنے موقف کا تفصیلی اظہار کیا۔ چانسلر میرکل نے کہا، ”ہم سب کو یہ بات سمجھنا ہو گی کہ یہ وائرس اب تک جرمنی اور پوری یورپی یونین میں پہنچ چکا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا جب تک اس وائرس کے خلاف کوئی ویکسین یا کوئی دوسرا ممکنہ طریقہ علاج دریافت نہیں کر لیا جاتا، یہ امکان اپنی جگہ موجود ہے کہ آبادی کا ایک بڑا حصہ کورونا وائرس کا شکار ہو سکتا ہے۔ ماہرین نے اس حوالے سے اندازہ یہ لگایا ہے کہ کووِڈ انیس سے مستقبل میں جرمنی کی کُل ملکی آبادی کا 60 فیصد سے لے کر 70 فیصد تک حصہ متاثر ہو سکتا ہے۔
مزید یہ کہ یہ وائرس ایسے ممکنہ مریضوں کے لیے خاص طور پر خطرناک ثابت ہو سکتا ہے، جو یا تو بزرگ شہری ہیں یا جو پہلے ہی سے کسی نہ کسی بیماری کا شکار ہیں اور جن کی قوت مدافعت کم ہو چکی ہے۔
اس پس منظر میں انگیلا میرکل نے خبردار کرتے ہوئے کہا، ”ہمیں اس بات کو ہر حال میں یقینی بنانا ہو گا کہ یہ وائرس ہمارے ملک کے نظام صحت کے لیے اس حد تک غیر معمولی بوجھ کی وجہ نہ بنے کہ اس بوجھ کو برداشت کرنا یا اس کا مقابلہ کرنا مشکل ہو جائے۔‘‘
کووِڈ انیس پھیپھڑوں کی ایک ایسی بیماری ہے، جس کی وجہ سے جرمنی میں اب تک تین افراد کی موت واقع ہو چکی ہے۔ مجموعی طور پر آج بدھ کی صبح تک جرمنی میں اس وائرس سے متاثرہ مریضوں کی کُل تعداد 1200 سے متجاوز ہو چکی تھی۔
اس پریس کانفرنس میں انگیلا میرکل کے ساتھ جرمنی کے وفاقی وزیر صحت ژینس شپاہن اور تحقیقی ادارے رابرٹ کوخ انسٹیٹیوٹ کے سربراہ لوتھار وِیلر بھی موجود تھے۔ جرمن سربراہ حکومت نے کہا، ”اس وقت اشد ترین ضرورت کورونا وائرس کے پھیلاؤکی رفتار کو کم کرنا ہے، تاکہ یوں اس وائرس کا علاج دریافت کرنے کے لیے مزید وقت مل سکے اور اس امر کو بھی یقینی بنایا جا سکے کہ جرمنی میں طبی شعبے کے کارکن خود بیمار ہوئے بغیر متاثرہ افراد کی مدد کر سکیں اور ملکی نظام صحت مفلوج نہ ہو۔‘‘
یورپی کمیشن کی طرف سے اب تک ماہرین کا ایک ایسا گروپ بھی تشکیل دیا جا چکا ہے، جس میں کئی طرح کے وائرس اور ان سے پھیلنے والی بیماریوں کے بہت سے نامور ماہرین یا وائرالوجسٹ شامل کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ یورپی یونین نے اپنی رکن ریاستوں کی طرف سے مل جل کر اس وائرس کے علاج پر تحقیق اور کسی ممکنہ ویکسین کی تیاری کے لیے ایسی کوششوں کی عملی مدد کا بھی فیصلہ کیا ہے۔
برلن میں چانسلر میرکل کی حکومت نے کورونا وائرس کے خلاف جنگ کے لیے تقریباﹰ ایک بلین یورو کے مالی وسائل مہیا کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ وہ 145 ملین یورو ان رقوم کے علاوہ ہوں گے، جو جرمنی کی طرف سے Cepi نامی ریسرچ الائنس کو مہیا کیے جا رہے ہیں۔ یہ ریسرچ الائنس ایک ایسا بین الاقوامی تحقیقی اتحاد ہے، جو جدید سے جدید ویکسینز کی تیاری پر ریسرچ کرتا ہے۔
جرمن چانسلر نے اپنی اس پریس کانفرنس میں واضح طور پر کہا کہ عالمی معیشت کی طرح یورپی اور جرمن معیشتیں بھی اس وائرس کے منفی اقتصادی اور مالیاتی اثرات سے نہیں بچ سکیں گی۔ اس مقصد کے لیے جرمن حکومت نے مالیاتی مشکلات کے شکار اداروں کے لیے عبوری طور پر ممکنہ مالیاتی امداد کا پروگرام بھی بنایا ہے، جو جرمنی کے ریاستی ترقیاتی بینک KfW کی طرف سے مہیا کی جائے گی۔
اس سلسلے میں کل منگل دس مارچ کی شام یورپی یونین کے سربراہان مملکت و حکومت کی جو کانفرنس ذاتی طور پر کسی ایک جگہ جمع ہوئے بغیر ویڈیو کانفرنس کی صورت میں منعقد ہوئی تھی، اس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا تھا کہ کورونا وائرس کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے یونین کی رکن ریاستیں اپنے اپنے مالیاتی استحکامی اور اقتصادی ترقیاتی منصوبوں میں اب لچک سے کام لیں گی۔
چانسلر انگیلا میرکل نے اپنی اس پریس کانفرنس میں جرمن باشندوں سے یہ اپیل بھی کی کہ یہ وقت ہر شہری کے ساتھ یکجہتی کے اظہار اور احتیاط پسندی کا وقت ہے اور ہر کسی کو اسے اپنی ذاتی ذمے داری سمجھنا ہو گا۔
اس پس منظر میں کہ جرمنی میں 1200 سے زائد افراد اس وائرس کا شکار ہو چکے ہیں اور بزرگ شہریوں کی زندگیاں خاص طور پر خطرے میں ہیں، چانسلرمیرکل نے کہا، ”ہماری طرف سے اظہار یکجہتی، ہماری دانش مندی اور ہمارے دلوں کے لیے یہ بات پہلے ہی ایک امتحان بن چکی ہے کہ ہم ایک دوسرے کا کتنا خیال رکھتے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ ہم سب مل کر معاشرتی یکجہتی کے اپنے اس امتحان میں کامیاب رہیں۔‘‘