اسلام آباد ہائی کورٹ نے اڈیالہ جیل سے معمولی جرائم میں ملوث اورسات برس سے کم سزا والے قیدیوں کی رہائی کا حکم جاری کیا۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اڈیالہ جیل میں 1362قیدیوں کی ضمانت پر رہائی کے کیس کی سماعت میں 10 برس سے کم سزا کے زیرسماعت قیدیوں کی ضمانت پر احکامات جاری کئے۔اسی دوران کراچی کی ماتحت عدالتوں کے جج صاحبان نے ملیر جیل کا دورہ کیا اور ضمانتوں پر معمولی جرائم میں ملوث ملزمان کی رہائی کا حکم دیا۔ بالخصوص ڈسٹرکٹ ملیر کورٹ نے21مارچ تک 188قیدی رہا کئے۔ جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کو رکھنا حکام کی مجبوری ہے۔ جس حساب سے جرائم بڑھنے کی رفتار ہے اور گرفتار ملزمان کو جیلوں میں اسیر کئے جاناپہلے ہی سے قابل توجہ رہا ہے۔روزانہ 200قیدی صرف سندھ کے جیلوں میں آتے ہیں، آئی جی سندھ جیل خانہ جات کا کہنا ہے کہ نئے آنے والے قیدیوں کے لئے الگ سے قرنطنیہ بنا دیا دیا گیا ہے ماتحت عدالتوں میں مقدمات کی بھرمار کی وجہ سے ہر مقدمے کی سماعت ممکن نہیں ہوسکتی، اس لئے بڑھتے ہوئے مقدمات کی وجہ سے جوڈیشنل ریمانڈ میں اسیر قیدی کے احباب ضمانت کے حصول کی بھرپور کوشش کرتے ہیں لیکن مسئلہ پھر وہی آجاتاہے کہ ماتحت عدالتوں پر جو لاکھوں مقدمات کا بوجھ ہے، وہ کسی طرح کم ہو تو نئے مقدمات کی سماعت ممکن ہوسکے۔
جیلوں میں قیدیوں کی حالت زار پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے، انسانوں کے ساتھ نام نہاد اصلاح خانوں میں کیا ہوتا ہے اس سے بھی کوئی بے خبر نہیں، جیل سے کورٹ تک آنے کے لئے قیدی کو کتنی رشوت دینا پڑتی ہے، اس سے بھی کوئی لاعلم نہیں، انہیں جیلوں میں قیدیوں کو لے جانے والے گاڑیوں کی خستہ حالت و انتہائی کمیابی سمیت کورٹ لاک اپ سے ماتحت عدالتوں میں مقدمات چلانے کے لئے انتہائی دشوار گذار مراحل کا سامنا ہوتا ہے۔ وکلا برداری کا کردار بھی بہت اہم ہے اور اس بات کو وہ احباب اچھی طرح جانتے ہیں جو مخالفین کی وجہ سے جھوٹے، سچے الزامات میں مہینوں، برسوں جیل گذار چکے ہیں۔پولیس کی جانب سے چارج شیٹ مقررہ وقت پر نہ دینا اور پولیس کیس کو بروقت جمع نہ کرانا، فوجداری مقدمات کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔
پبلک پراسیکوٹر اُس وقت تک کسی ملزم کے خلاف فرد جرم عاید نہیں کراتا جب تک تفتیشی افسران حتمی چالان و فائل جمع نہ کرادیں۔ ضمنی چالان کی وجہ سے ملزمان جوڈیشنل ریمانڈ میں جیلوں میں اسیر رہتے ہیں اور اگر ان کا کوئی پرسان حال نہ ہو تو وہ ایسے جرم کی سزا برسوں بھگت لیتے ہیں، جو ناکردہ ہوتے ہیں۔ماتحت عدالتوں کے جوڈیشنل مجسٹریٹ اور ڈسٹرکٹ جج صاحبان جیلوں کا دورہ بھی کرتے ہیں، قیدیوں کو ان کی آمد سے قبل بتادیا جاتا ہے کہ جو درخواست دینا چاہیں تو کاغذ پر خود درخواست لکھ کر جیل انتظامیہ کے پاس جمع کرادیں۔ قیدی پڑھے لکھے اسیروں کے پاس جا کر درخواست لکھواتے ہیں اور جیل انتظامیہ کے پاس جمع کرادیتے ہیں، ان میں عموماََ وہ قیدی اپنے اُس جرم کا اقبال کرتے ہیں، جس الزام کی سزا سے زیادہ وہ جیلوں میں قید ہوتے ہیں۔
دورے پر آنے والے ماتحت عدالتوں کے جج صاحبان عموماََ ایسے قیدیوں کو معمولی جرمانے عائد کرکے رہا کرنے کا حکم جاری کردیتے ہیں، تاہم بیشتر قیدیوں کے پاس جرمانے کی رقم ادا کرنے کی گنجائش بھی نہیں ہوتی۔ جیل کی بیرکوں میں قیدی آپس میں چندہ کروالیتے ہیں، کبھی کبھار تو خود ان قیدیوں کے پاس بھی نقدی نہیں ہوتی، اس باعث معمولی جرمانے کی سزا پانے کے بعد بھی حکم نامہ ہونے کے باوجود قیدی رہانہیں ہوپاتا۔
جیل انتظامیہ کے ساتھ بیشتر سماجی تنظیموں کے رابطے ہوتے ہیں، یہ سماجی تنظیمیں مخیر حضرات کے تعاون سے بعض قیدیوں کے جرمانے جمع کراکر ا رہائی دلادیتے ہیں، بیت المال کی جانب سے بھی جرمانے، قصاص و دیت ادا کرنے کی سہولت ہے لیکن اس کا طریقہ کار طویل وقت لے لیتا ہے۔ اس وقت کرونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا دشواریوں کا سامنا کررہی ہے، ان گنت پریشانیوں میں ان رشتے داروں کو شدید تحفظات ہیں کہ اگر ایران کی طرح پاکستان میں بھی خدانخواستہ کسی قیدی میں کرونا وائرس پھیل گیا تو اس کے خوفناک نتائج نکلیں گے۔ معمولی جرائم میں ملوث گناہ گار یا بے گناہ اسیر موت کے قریب تر ہوجائے گا، جیلوں میں قیدیوں کے لئے صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں، مرض کوئی بھی ہو، ہر بیماری کے لئے دو گولیاں (آسرا و تسلی) ہی دی جاتی ہیں، جیلوں کے اندر بنے اسپتال وی آئی پی قیدیوں کے استعمال میں ہوتے ہیں،جیلوں میں صحت کی سہولیات حاصل کرنا ناممکنات سے ہے، خاص کر اگر کسی قیدی کو جیل سے باہرپرائیوٹ یاسرکاری اسپتال میں علاج کرانے کی ضرورت پیش آتی ہے تو زیادہ تر خطرات ہوتے ہیں کہ وہ قیدی صحت یاب ہونے کے بجائے انتقال ہی کرجائے گا کیونکہ علاج و پیرول پررہائی کی قانونی پیچیدگیاں و طریق کار اتنا گنجلگ اور دشوار ہے کہ کسی غریب و مفلس قیدی کے لئے علاج کی سہولت محض خواب ہے۔
اس اَمر سے قطع نظر کہ قیدی گناہ گار ہے یا نہیں، انسانیت کے ناطے حکومت کو ملک بھر کی جیلوں میں قید، اُن اسیروں کے حوالے سے اقدامات کی ضرورت ہے جو معمولی جرائم میں ماتحت عدالتوں میں لاکھوں مقدمات کے باعث طویل عرصے سے قید ہیں، اس کے علاوہ ایسے قیدیوں کی بھی بڑی تعداد جیلوں میں ہے، جنہیں جیل مینوئل،وفاق و صوبائی حکومتوں کی جانب سے سزا میں کمی کرنے کا اختیار حاصل ہے، اس کے علاوہ قومی و مذہبی تہواروں میں سزاؤں میں تخفیف کئے جانے کی اضافی گنجائش بھی موجود ہے۔ اگر ان اقدامات پر ہی عمل کرلیا جائے تو ہزاروں ایسے قیدی رہائی پا سکتے ہیں جن کی سزا سات برس سے کم ہے۔
خطرناک جرائم میں ملوث مجرمان پر معافی کا اطلاق نہیں ہوتا، اس لئے ماتحت عدالتوں سے لے کر صدر پاکستان تک معمولی سزاؤں میں بند اور ایسے ملزمان کو رہائی کے لئے معاون و مددگار بن سکتے ہیں۔ بالخصوص کئی برسوں سے چالان پیش نہ کئے جانے اور فردجر م عائد نہ ہونے والے ملزمان کو تو قانون بھی یہ حق دیتا ہے کہ و ہ جوڈیشنل ریمانڈ کے دوران ضمانت حاصل کرسکے۔ اسلام کی تعلیمات میں بھی یہی ہے کہ اگر قدرتی آفات کا شکار ہوں تو اللہ تعالی سے رجوع کیا جائے، توبہ استغفار، صدقات کو معمول سے زیادہ زندگی کا حصہ بنا لیا جائے،قیدیوں و قرض داروں، مفلس و بیماروں کے ساتھ صلہ رحمی کی جائے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت فرمائی:ترجمہ: قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت قبول کرو۔ (طبرانی کبیر بحوالہ سیرۃ المصطفیٰ ۱/۵۷۹، مولانا ادریس کاندھلوی)۔