کروونا ایس او پیز غفلت ہماری

 Corona SOPs Lockdown

Corona SOPs Lockdown

تحریر : عقیل خان

ملک میں کورونا وائرس کی تیسری لہر کا آغاز ہو چکا ہے جس میں برطانیہ سے آیا وائرس نمایاں ہے۔ یہ وائرس تیزی سے پھیلتا اور اموات بھی زیادہ ہوتی ہیں۔کویڈ 19 کی تیسری لہر نے پاکستان کو پوری طرح لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ پاکستان کے بڑے بڑے شہر اس کی لپیٹ میں ہیں مگر عوام ہے کہ اس کو ذرا بھر بھی احساس نہیں۔ حکومت پاکستان کے ترجمان بار بار ٹی وی پر آکر عوام آگاہ کررہے ہیں ۔وہ کروونا کی اس لہر کی شدت کو دیکھتے ہوئے میڈیا ، سوشل میڈیا سمیت ہر ذرائع سے پاکستانی عوام کو آگاہی دے رہے ہیں مگر ایک ہم ہیں کہ ہر بات کو مذاق میں ڈال کر اپنی زندگی کو خود داؤ پر لگا رہے ہیں۔

سرکاری اور عوامی سطح پر ہم نے بحیثیت قوم جس طرح ایس او پیز کو نظرانداز کرنے کی روش اپنائی ہوئی ہے اس نے ہمیں آج یہ دن دکھائے ہیں کہ ہم خطرے کی لائن عبور کرچکے ہیں۔ پرہجوم عوامی مقامات، ہسپتال اور سرکاری ونجی دفاتر میں احتیاطی تدابیر کو یکسر نظرانداز کردیا گیا ہے جبکہ ہمارے قومی و سیاسی رہنما بھی ماسک پہننا اپنے اوپر لازم نہیں سمجھتے۔ جو شخص ماسک پہنے نظر آئے ہم اس کا تمسخر اڑاتے ہیں۔ لاپروائی اور بے احتیاطی کے نتیجے میں ہمیں ایک بار پھر لاک ڈائون کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو کہ ملکی معیشت کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا اور ملک میں بے روزگاری کی شرح میں مزید کئی گنا اضافہ ہوجائے گا

کروونا کی تیسری لہر سے بچاؤ کے لیے حکومت پاکستان نے ہر سطح پر ہر ممکن اقدام اٹھایا۔ شروع شروع میں جن شہروں میں یہ لہر آئی ان کو سمارٹ لاک ڈاؤن کیا مگر ہماری غیر سنجیدہ عوام اس کو مذاق ہی سمجھتی رہی۔ آج نوبت یہاں تک آچکی ہے کہ پاکستان کے اکثر اضلاع کروونا کی لپیٹ میں ہیں اور بہت سے لوگ اس کی لپیٹ میں آکر دنیافانی سے کوچ کرچکے ہیں۔ تیسری لہر کے شروع میں پاکستان میں اموات چند افراد پر مشتمل تھی مگر اب پچھلے کئی روز سے روزانہ سو سے زائد افراد کروونا کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔

اس لہر نے ویسے تو بہت سے لوگوں کی قربانی لی ہے جن کا ذکر کرنا میرے لیے بہت مشکل ہے مگر میرے اپنے دو ساتھی ، دو قلم کار اور ملک و قوم کے اثاثے کروونا کی وجہ سے ہم چھن گئے ہیں۔ پہلے تو میرے انتہائی محترم بزرگ ،اور ماہنامہ افکار جدید کے روح رواں سید ظفر نقوی والد محترم سید بدر سعید اور اسد نقوی اس کروونا سے لڑتے ہوئے اس دنیا فانی سے کوچ کر گئے یہاں یہ ذکر نہ کروں تو میںشاہ صاحب کے ساتھ ناانصافی کروں گا کہ سید گھرانے سے تعلق رکھنے والی یہ شخصیت پاکستان سے اسقدر محبت رکھتی تھی کہ میں بیان نہیں کرسکتا۔ ماہنامہ افکار جدید کے پلیٹ فارم سے” فکرپاکستان ”کے نام سے کاسموکلب میں میٹینگ رکھتے جس میں پاکستان کے سیاسی ادبی،سماجی اور ریٹائرڈ آرمی کے نامور لوگ شامل ہوا کرتے تھے اور ان کی محبت کی بدولت ایسی محفل میں بندہ ناچیز کو بھی شامل ہونے کا شرف حاصل ہوتا تھا۔

دوسری ہماری بہت محترم بہن کرن وقار صاحبہ ہیں جو ایک چھوٹی سی معصوم سی بچی کو چھوڑ کر اپنے رب جلیل کے پاس پہنچ گئیں۔ محترمہ کرن وقار نے اپنے قلم کی بدولت بہت جلدادبی دنیا میں اپنا نام بلند کیا۔کرن وقار نے اپنی موت سے پہلے اس کروونا کی لہر میں اپنی والدہ اور بھائی کو بہتے دیکھا اور چند ایام میں ایک ہی گھر یہ تینوں چشم و چراغ سب کو روتا چھوڑ کر چلے گئے۔

کروونا پھیلنے کی اصل وجہ ہماری عوام کا غیر سنجیدہ ہونا ہے۔ یہی وجہ ہے آج ہمیں پاک فوج کی خدمات لینا پڑ رہی ہے کیونکہ ”وگڑے تگڑے”(یعنی بگڑے ہوئے لوگ) کو ڈنڈا پیر ہی درست کرسکتا ہے۔ اس حقیقت سے انکارنہیں کہ جہاں عوام ایس او پیز پر عمل کرنے میں سنجیدہ نہیں ادھر ہماری حکومت بھی عمل کرانے میں اتنی سنجیدہ نظر نہیں آرہی کیونکہ این سی او سی حالات کو بھانپتے پریس کانفرنس کے ذریعے اعلان تو کردیتی ہے مگر ان پر عمل کرانے والے ادارے خواب خرگوش میںمشغول ہوتے ہیں۔ میں نے مختلف شہروں میں دیکھا ہے کہ ان شہروں میں ایس او پیز کو جوتی کی نوک پررکھاہوتا ہے۔ چھ بجے مارکیٹ بند ہونے کا اعلان کیا جاتا ہے تو وہ چند شہروں میںعمل ہوتا نظر آتا ہے مگر باقی شہروں میںتو کوئی پوچھنے والا نہیں۔

بازاروں میں دکانوں پر نہ دکاندار خود ماسک لگاتا ہے اور نہ ہی خریددار۔ یہی نہیں بنک ڈاکخانہ سمیت ایسے ادارے جہاں پر عوام کا آنا جا نا لگا رہتا ہے وہاں پر برائے نام لکھا ہوتا ہے ماسک کے بغیر داخلہ ممنوع ہے مگر اندر بیٹھے لوگ نہ خود ماسک لگاتے اور نہ ہی عوام ،سینٹائزر کا استعمال تو اب دیکھنے کو بھی نہیں ملتا۔چھ فٹ کا فاصلہ دور کی بات ہے ایک فٹ کا فاصلہ بھی نہیں رکھویا جاتا ہے۔ نجی و گورنمنٹ دیہی وشہری ہسپتالوں کا حال بھی کچھ اس طرح سے دیکھنے کو ملتا ہے۔

گاڑیوں میں بغیر ماسک ڈرائیونگ منع ہے مگرلاہور ملتان روڈ (جس کو موٹروے بھی کہتے ہیں)پر ڈرائیور حضرات پر کوئی سختی نہیں ۔ جب اوپر سے ڈنڈا اٹھتا ہے تو پھر چار دن سختی نظر آتی ورنہ دما دم مست قلندر چل رہا ہوتا ہے۔ٹرانسپورٹ میںکوئی ایس او پیز کو فالو نہیں کررہا، گاڑیوں میں سیٹ بائی سیٹ سواریا ں بٹھا ئی جارہی ہیں، کوئی فاصلہ نہیں رکھا جارہا ۔ دیہی علاقوں میں مقامی پولیس یا انتظامیہ اپنی مرضی سے راؤنڈ لگاکر ایس او پیز پر عمل کراتی ہے اور کبھی گھر بیٹھے سب اوکے کی رپورٹ جارہی ہوتی ہے۔

اگر ہم نے واقعی کروونا کو ختم کرنا ہے تو پھر سب کو مل کر اس کے خلاف جنگ لڑنا ہوگی۔ ہمیں اپنا اپنا فرض ادا کرنا ہوگا۔ بطور معلم، ڈاکٹر،علما ، انتظامیہ ، فیملی سربراہ اور سماجی و سیاسی رہنما کروونا کے ایس اوپیز پرخود بھی عمل کرنا ہوگا اور دوسروں کو بھی عمل کرانا ہوگا۔ جب تک کروونا کا ایک بھی مریض پاکستان میں ہوگا اس کا پھیلنے کا خدشہ جب تک جاری رہے گا۔ آئیے ہم رمضان المبارک میں عہد کریں کہ اپنے پیاروں کے لیے اپنے ملک کے لیے کروونا کے خلاف ہر وہ عمل کریں گے جس سے اس سے چھٹکارا پایا جا سکے۔ انشا ء اللہ

Aqeel Khan

Aqeel Khan

تحریر : عقیل خان
aqeelkhancolumnist@gmail.com