کورونا وائرس کا پھیلاؤ: متعدد ممالک سخت اقدامات پر مجبور

Coronavirus

Coronavirus

فرانس (اصل میڈیا ڈیسک) فرانس نے کورونا کیسز میں اضافے کے سبب ماسک پہننے کے قواعد سخت کردیے ہیں۔ عوامی مقامات پر چہرے کا ماسک نہ پننے والوں پر جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ ہانگ کانگ نے بھی سخت ہدایات جاری کی ہیں۔

فرانس نے کورونا کیسز میں اضافے کے سبب ماسک پہننے کے قواعد سخت کردیے ہیں۔ عوامی مقامات پر چہرے کا ماسک نہ پننے والوں پر جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ ہانگ کانگ نے بھی سخت ہدایات جاری کی ہیں۔

موسم گرما کی عام تعطیلات یورپی شہریوں کو سیر و تفریح کے مقامات کی طرف کھینچے لیے جا رہی ہیں۔ خاص طور پر چند مقامات جیسے کہ پیرس کا آئفل ٹاور اور ڈزنی لینڈ اس وقت بچوں والی فیملیز کے لیے مقناطیسی کشش رکھتا ہے۔

پیرس کا ڈزنی لینڈ تھیم پارک پبلک کے لیے دوبارہ کھول دیا گیا ہے۔ یہاں آنے والے شائقین حفاظتی طور پر چہرے کا ماسک پہنے ہوئے ہیں۔ پیرس سے نزدیک یورپی یونین کا وہ اجلاس جاری ہے جس میں یورپی رہنما کورونا کی وبا سے نمٹنے کے لیے ریکوری فنڈ پر اتفاق رائے کی کوششیں چوتھے روز بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پیر 20 جولائی کی صبح تک امریکی یونیورسٹی جانز ہاپکنز کے جائزے کے مطابق دنیا بھر میں کووڈ انیس کا شکار ہو کر چھ لاکھ افراد موت کے منہ میں جا چُکے ہیں۔ چین کے صوبے سنکیانگ میں ‘جنگ کی سی صورتحال‘ کا اعلان کر دیا ہے اور ہانگ کانگ کے رہنما نے کہا ہے کہ کورونا کی وبا کا سلسلہ ان کے ملک میں بھی سنگین شکل اختیار کر چُکا ہے۔

ادھر جرمنی کے سب سے بڑے صوبے باویریا میں تعطیلات پر گئے ہوئے شہری اپنے گھروں کو لوٹنا شروع ہو گئے ہیں۔ جلد ہی میونخ کے ہوائی اڈے پر مسافروں کا ٹیسٹ کیا جائے گا۔

برطانیہ کے اقدامات

برطانوی دوا ساز کمپنی ‘جی ایس کے‘ نے کورونا وائرس کے خلاف ویکسین کی تیاری کے لیے باہمی تعاون کا آغاز کرتے ہوئے جرمنی کی کمپنی ‘کیور ویک‘ کے 10 فیصد حصص خریدنے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے جس پر 130 ملین یورو کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔

کیورویک کمپنی نے گزشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ وہ جرمنی میں کورونا وائرس کے علاج کے لیے تجرباتی ویکسین کو انسانوں پر آزمائے گی۔ دریں اثناء برطانیہ نے معروف امریکی دواساز کمپنی فائزر کے ساتھ کووڈ 19 کی ایک ممکنہ ویکسین کے 30 ملین ڈوزز کی خرید کا معاہدہ کیا ہے۔ اور اس پر دستخط بھی ہو گئے ہیں جبکہ لندن حکومت فرانسیسی دواساز کمپنیوں کے گروپ ‘والنیوا‘ سے 60 ملین ڈوزز خریدنے کے معاہدے پر بھی دستخط کر چکی ہے اور اُس نے یہ آپشن بھی دیا ہے کہ اگر یہ ویکسین محفوظ اور کارآمد ثابت ہوئی تو وہ مزید 40 ملین ڈوزز خریدے گی۔

برطانوی وزیر برائے تجارت آلوک شرما کے بقول، ”دنیا کی سب سے اہم دواساز اور ویکسین تیار کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ یہ نئی شراکت داری اس بات کو یقینی بنائے گی کہ برطانیہ کے پاس ویکسین کے حصول کا بہترین موقع موجود ہے جو خطرات سے دوچار اس کے شہریوں کی حفاظت کرسکے گا ۔‘‘

جرمنی میں پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرنے والے بغیر ماسک کے سفر نہیں کر سکتے۔

جرمنی یورپ کا وہ سب سے پہلا ملک ہے جس نے کورونا وائرس کے خلاف حفاظتی اقدامات میں بڑھ چڑھ کر فعال کردار ادا کیا ہے۔ لاک ڈاؤن، سوشل ڈسٹنسنگ اور چہرے کے ماسک پہننے کو لازمی قرار دینے کے علاوہ جرمنی، یورپی یونین میں کورونا کے خلاف ویکسین کی ممکنہ تیاری پر غیر معمولی زور دیتا رہا ہے۔ یورپ کی اقتصادی شہ رگ کی حیثیت رکھنے والے ملک جرمنی میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 249 نئے کیسز کی اطلاعات کے ساتھ ملک میں کورونا وائرس کا شکار ہونے والوں کی مجموعی تعداد 201,823 ہو گئی ہے، جبکہ کووڈ 19 میں مبتلا افراد کی دو مزید اموات کے ساتھ جرمنی میں اب تک ہلاکتوں کی کل تعداد 9,086 ہو گئی ہے۔

دریں اثناء جنوبی ریاست باویریا نے، جس میں جرمنی کے تمام دیگر صوبوں کے مقابلے میں اب تک سب سے زیادہ کورونا کیسز اور اموات کی تعداد ریکارڈ کی گئی ہے، اعلان کیا ہے کہ تعطیلات منانے والے جرمن شہریوں کی واپس ملک آمد پر ایئر پورٹ پر ہی ان کے کورونا ٹیسٹ کروانے کا سلسلہ جلد شروع ہونے کا امکان ہے۔

جمعہ 17 جولائی کو برسلز میں شروع ہونے والا یورپی یونین کا سربراہی اجلاس غیرمعمولی طور پر آج چوتھے روز بھی جاری ہے۔ گزشتہ شب یورپی رہنماؤں کے درمیان رات بھر بحث جاری رہی تاہم ان رہنماؤں کے مابین اختلاف رائے دور نا کیا جا سکا اور آج پیر کی دوپہر سے بات چیت کا یہ سلسلہ پھر سے جاری ہے۔ اتوار کو جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے متنبہ کیا تھا کہ ان غیر معمولی مذاکرات کا سلسلہ ناکامی سے دو چار ہو سکتا ہے۔ انگیلا میرکل نے عندیہ دیا تھا کہ عین ممکن ہے کہ یورپی یونین کے رہنماؤں کے مابین یورپی یونین کی بکھری ہوئی معیشت کے لیے غیر معمولی بحالی پیکیج اور طویل مدتی بجٹ کے معاملے پر کوئی معاہدہ طے نہ پائے۔

جرمن چانسلر انگیلا میرکل متعدد بار کورونا کی دوسری لہر سے خبر دار کر چکی ہیں۔

دریں اثناء ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) کے مطابق، مصرکے مختلف حراستی مراکز میں ممکنہ طور پر کووڈ انیس کے پھیلاؤ کے سبب کم از کم 14 قیدی ہلاک ہوگئے ہیں۔

انسانی حقوق کے اس گروپ نے یہ جائزہ دراصل گواہوں کے بیانات، جیلوں سے ملنے والے قیدیوں کے خطوط اور مقامی حقوق گروپوں کی رپورٹوں سے حاصل شدہ اعداد و شمار اور تفصیلات کی بنیاد پر پیش کیا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کے بیان میں کہا گیا، ”جیلوں میں قیدیوں کو ناکافی طبی نگہداشت اور وائرس یا علامت کی اسکریننگ یا جانچ کے لیےعملی طور پر سہولیات کی عدم موجودگی ان اموات کا سبب بی ہے۔‘‘