امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) عالمی ادارہ صحت کے مطابق کورونا وائرس کے نقطہ آغاز کی تلاش کی کوششوں کو سیاسی مداخلت سے نقصان پہنچ رہا ہے۔ یہ بیان بائیڈن کی طرف سے ملکی انٹیلیجنس سے چین میں اس وائرس کے آغا سے متعلق رپورٹ طلب کرنے کے بعد سامنے آیا ہے۔
عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او نے 28 مئی جمعے کے روز متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ عالمی وبا کورونا وائرس کے نقطہ آغاز کی تفتیش کی کوششوں کو سیاست کی آمیزش سے پامال کیا جا رہا ہے۔
عالمی ادارہ صحت میں ایمرجنسیز یا ہنگامی حالات کے شعبے کے سربراہ مائیکل رائن نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا، ”میں کہوں گا کہ سائنس کو سیاست سے الگ رکھا جائے اور ہمیں ان جوابات کو تلاش کرنے دیں جس کے لیے ہمیں مناسب اور مثبت ماحول کی ضرورت ہے۔ اس پورے عمل کو سیاست کی وجہ سے زہر آلود کیا جا رہا ہے۔‘‘
حالیہ دنوں میں عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او پر اس بات کے لیے ایک بار پھر سے دباؤ شروع ہوا ہے کہ کورونا وائرس کے نقطہ آغاز کا پتہ لگانے کے لیے اس کی مزید گہرائی سے تفتیش ہونی چاہیے۔
اس برس کے اوائل میں ادارے کی ایک ٹیم اس کی تفتیش کے لیے چین کے شہر ووہان گئی تھی جہاں سب سے پہلے اس وبا کا انکشاف ہوا تھا۔ ڈبلیو ایچ او کی ٹیم نے ووہان میں چار ہفتے کا وقت گزارنے کے بعد اپنی ایک تفتیشی رپورٹ میں کہا تھا کہ غالب امکان یہی ہے کہ یہ وائرس چمگادڑ سے انسانوں میں کسی تیسرے جانور کے توسط سے پہنچا۔ ادارے نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی کہا تھا کہ کسی، ’’لیب یا تجربہ گاہ سے اس وآئرس کا وجود میں آنا انتہائی نا ممکن بات معلوم ہوتی ہے۔‘‘
لیکن اس کے باوجود بہت سے سیاست دانوں اور بعض سائنسدانوں کا خيال یہ ہے کہ ڈبلیو ایچ او کی تفتیش کسی حتمی نتیجے تک پہنچنے میں ناکام رہی ہے۔
اسی ہفتے امریکی صدر جو بائیڈن نے کورونا وائرس کے نقطہ آغاز یا اس کے ماخذ کی گہرائی سے تفتیش کا مطالبہ کرتے ہوئے اپنے تفتیشی اداروں سے اس کی پھر سے جانچ کرنے کو کہا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کی حتمی جانچ ہونی چاہیے کہ آخر وائرس کسی جانور سے انسانوں تک پہنچا یا پھر لیب سے وجود میں آيا۔
افریقہ میں مختلف قسموں کی چمگادڑوں، خاص طور پر فلائنگ فوکس کہلانے والی چمگادڑ کے جسم میں مختلف طرح کے وائرس موجود ہوتے ہیں، جن میں ایبولا کا وائرس بھی شامل ہے۔ خود ان جانوروں کے لیے بے ضرر یہ وائرس انسانوں کے لیے مہلک ثابت ہو سکتے ہیں۔ افریقہ کے بہت سے ملکوں میں لوگ بڑے سائز کی چمگادڑ کو اُس کے گوشت کی وجہ سے شکار کرتے ہیں اور یوں یہ وائرس آسانی سے انسانوں تک پہنچ جاتا ہے۔
بائیڈن کے مطابق امریکی انٹیلیجنس برادری کی اکثریت نے بھی انہی دو ممکنہ منظر ناموں کے آس پاس ہی کام کیا ہے جس میں سے ایک یہ ہے کہ یہ وائرس کسی متاثرہ جانور کے ساتھ رابطے میں آنے سے انسانوں میں پھیلا یا پھر دوسرا یہ کہ یہ کسی تجربہ گاہ میں حادثاتی طور پر پیدا ہوا۔ تاہم کسی کو بھی اس کا حتمی علم نہیں ہے کہ آخر حقیقت کیا ہے اور اسی حقیقت کی دریافت کے لیے گہرائی سے تفتیش کی ضرورت ہے۔
اس سے قبل امریکی وال اسٹریٹ جرنل نے انٹیلیجنس ذرائع کے حوالے سے رپورٹ دی تھی کہ ووہان کے وبائی امراض کے مرکز میں کام کرنے والے تین محقیقین کو نومبر 2019 میں کورونا جیسی علامات کے ساتھ ہسپتال داخل کرایا گیا تھا۔
اسی خبر کے بعد ہی امریکی صدر جو بائیڈن نے ملکی خفیہ ایجنسیوں کو اس وائرس کے ماخذ کے بارے میں تین ماہ کے اندر رپورٹ پیش کرنے کا کہا تھا۔ اس وائرس سے اب تک 35 لاکھ سے بھی زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔