ووہان (اصل میڈیا ڈیسک) چین کے شہر ووہان سے پھیلنے والے کرونا وائرس نے اب پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔چینی ماہرین نے اس مہلک وائرس سے ہونے والی ہلاکتوں کے بارے میں ڈیٹا جاری کیا ہے اور دوسرے ممالک سے بھی ڈیٹا منظرعام پرآرہا ہے۔اس سے ایک عجیب بات سامنے آئی ہے اور وہ یہ کہ اس وائرس سے عورتوں کی نسبت مردوں کی زیادہ اموات ہورہی ہیں۔
چین کے علاوہ دوسرے ممالک سے منظرعام پر آنے والے ڈیٹا کے حاصلات سے بھی اس امرکی تصدیق ہوئی ہے کہ کرونا وائرس سے مردوں ہی کی زیادہ اموات ہوئی ہیں۔عورتیں بالعموم لمبی عمر پاتی ہیں جبکہ بعض لوگوں نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ ایک وائرس کیسے جنسی تفریق کررہا ہے اور اس سے تویہ ظاہر ہورہا ہے کہ آیندہ کرونا وائرس کا کون سی صنف زیادہ شکار ہوسکتی ہے؟
کرونا وائرس سے ہلاکتوں اور اس کے متاثرین کے اعداد وشمار اکٹھے کرنے کا عمل ابھی جاری ہے۔اس لیے کووِڈ-19 کے بارے میں ابھی بہت کچھ پردۂ اخفا میں ہے اور اس کے پھیلنے کے انداز اور ہلاکتوں کے بارے میں تحقیقات بدستورجاری ہیں۔
تاہم اب تک کے دستیاب ڈیٹا کے مطابق کرونا وائرس سے دنیا کے مختلف ممالک میں عورتوں کے مقابلے میں مردوں کی زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں،وہی زیادہ متاثر ہوئے ہیں یا ہورہے ہیں۔
چین کے مرکز برائے انسداد امراض کی 11 فروری کو شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق کرونا وائرس سے تب تک ملک میں مردوں کی شرح اموات 2۰7 فی تھی اور عورتوں میں شرح اموات 1۰7 فی صد تھی۔اس مرکز نے چین میں کرونا وائرس کے تب تک 44 ہزار کیسوں کا جائزہ لیا تھا۔
اس کے بعد سے دنیا کے کم وبیش تمام ممالک میں کرونا وائرس پھیل چکا ہے۔اس سے دنیا بھر میں ہلاکتوں کی تعداد 61 ہزار سے متجاوز ہوچکی ہے اور 10 لاکھ سے زیادہ افراد متاثر ہوئے ہیں۔تمام ممالک اپنے ہاں کرونا وائرس کے متاثرین کا ڈیٹا اکٹھا کررہے ہیں اور اس کا تجزیہ کررہے ہیں۔ان حالیہ مطالعات سے بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ کرونا وائرس سے مردوں میں شرح اموات عورتوں کی نسبت زیادہ ہے۔
گلوبل 50/50 منصوبہ کے 3 اپریل تک جمع کردہ ڈیٹا کے مطابق اٹلی اور اسپین، دونوں ملکوں میں کرونا وائرس کے 69 فی صد مہلوکین مرد تھے۔
ابو ظبی میں واقع کلیو لینڈ کلینک میں متعدی امراض کے معالج ڈاکٹر ماہر بالقیس نے بھی ان حاصلات کی تصدیق کی ہے۔انھوں نے ابتدائی ڈیٹا کے حوالے سے بتایا ہے کہ دنیا بھر میں کووِڈ-19 کے 60 فی صد کیس مرد حضرات کے ہیں۔چین کی ایک تحقیق سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کرونا وائرس سے 65 فی صد ہلاکتیں مردوں کی ہوئی ہیں جبکہ عورتوں کی شرح اموات 35 فی صد ہے۔
انھوں نے کہا کہ دنیا بھر سے جمع کردہ ڈیٹا سے یہی ظاہر ہورہا ہے کہ عورتوں سے زیادہ مرد حضرات کرونا وائرس سے متاثر ہورہے ہیں۔نیز ڈیٹا یہ ظاہر کررہا ہے کہ اس مہلک وائرس سے مرد زیادہ شدید بیمار پڑ سکتے ہیں اور پھر موت کے منھ میں جاسکتے ہیں۔تاہم ڈاکٹر ماہر کہنا تھا کہ یہ ڈیٹا ابھی ابتدائی ہے اور اس پر مزید کام کرنے اور مزید نمونے حاصل کرکے ان کے تجزیے کی ضرورت ہے۔
امریکا سمیت بعض ممالک فی الوقت جنس کی بنیاد پر ڈیٹا جاری نہیں کررہے ہیں،جس سے سائنس دانوں کے لیے ایک بڑا ڈیٹا بیس تیار کرنا مشکل ہوجائے گا کیونکہ سائنس دان ابھی تک جمع کردہ اعداد وشمار سے سیکھ رہے ہیں۔ انھیں مضبوط تجزیے اور حاصلات کے لیے زیادہ ٹھوس ڈیٹا درکار ہے۔
کرونا وائرس سے مرد وعورتوں کی ہلاکتوں میں عدم مساوات کی اب تک مختلف وضاحتیں پیش کی گئی ہیں۔ڈاکٹر بالقیس کا کہنا ہے کہ اس میں طرز زندگی اور کردار کا بھی بڑا تعلق ہے۔مرد بیماری کی علامات ظاہر ہونے کے بعد کم ہی کسی طبیب سے رجوع کرتے یا طبی مشورے پر عمل کرتے ہیں۔
بعض محققین کا کہنا ہے کہ مرد حضرات کے کووِڈ-19 سے مرنے کی ایک اور وجہ ان میں شراب اور سگریٹ نوشی کی عادت ہے۔ان دونوں کی لت سے بیماری کا شکار ہونے کےامکانات بڑھ جاتے ہیں اور یوں کرونا وائرس کا شکار ہونے سے ایسے مردوں کے مرنے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔
بعض مطالعات سے یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ مرد اپنے ہاتھوں کو کم دھوتے ہیں جبکہ ماہرین اس مہلک وائرس سے بچاؤ کے لیے ہاتھوں کو وقفے وقفے سے صابن اور صاف پانی سے دھونے کا مشورہ دیتے ہیں۔
بعض ماہرین کے نزدیک جنس کی بنیاد پر جسم کے مدافعتی نظام میں بھی فرق ہوتا ہے۔ڈاکٹر ماہر بالقیس کے بہ قول خواتین کرونا ایسے وبائی وائرس کا مردوں کی نسبت کم شکار ہوتی ہیں۔اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان میں خود کار مدافعتی نظام بننے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ہارمون کے توازن اور جینیاتی عوامل کا بھی اس عدم مساوات سے تعلق ہے۔خواتین میں آسٹروجین بھی مردوں سے زیادہ ہوتے ہیں اور یہ ان میں وائرس کے مقابلے میں مدافعت کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
انھوں نے مزید بتایا ہے کہ ’’ جینز کی نمایاں تعداد بھی مدافعتی ردعمل کو منظم کرتی ہے۔یہ ایکس کروموسوم پر ان کوڈ ہوتے ہیں اور یہ کروموسوم عورتوں میں دو ہوتے ہیں جبکہ مردوں میں ایکس کروموسوم ایک ہوتا ہے۔‘‘ تاہم ان کے مطابق مرد اور عورت کے مدافعتی نظاموں میں فرق کے بارے میں ابھی تحقیق جاری ہے۔