جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے بارے میں کئی مرتبہ کہا جا چکا ہے کہ ان کا سیاسی سفر اختتام پذیر ہے۔ لیکن کورونا بحران کے دوران جرمنی سمیت دنیا بھر میں ان کے وقار میں اضافہ ہوا ہے۔
چانسلر میرکل آئندہ اس عہدے کے لیے انتخابات میں حصہ نہیں لیں گی۔ عام طور پر جب سیاست دان کنارہ کشی کا اعلان کر دیتے ہیں تو سیاسی مبصرین انہیں کمزور اور غیر موثر قرار دے دیتے ہیں۔
چانسلر میرکل کے بارے میں بھی ایسی ہی رائے بن رہی تھی۔ خیال تھا کہ سن 2019 میں ہی وہ چانسلر کے عہدے سے علحیدہ ہو جائیں گی۔ لیکن اس کے برعکس میرکل اب بھی موجود ہیں۔ ان کی قیادت پر جرمنی میں بھی اعتماد بڑھا ہے اور بین الاقوامی سطح پر بھی میرکل کی تعریف کی جا رہی ہے۔
کورونا وائرس کی وبا سے پیدا ہونے والے بحران نے دنیا بھر کے حکمرانوں کے لیے مشکلات پیدا کر رکھی ہے۔ کئی سربراہان حکومت کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔ تاہم چانسلر میرکل کے انداز قیادت اور بحران سے نمٹنے کی صلاحیتوں کی تعریف ہو رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی تعریفیں سمیٹنے والے عالمی رہنماؤں میں میرکل سرفہرست ہیں۔پاکستان ہو امریکا، لاطینی امریکا یا مشرق وسطیٰ، آخر دنیا بھر کے میڈیا میں میرکل کی تعریفیں کیوں کی جا رہی ہیں؟
اسرائیلی پبلک ٹی وی سے وابستہ صحافی امیخائی سٹائن کا کہنا ہے، ”میرکل ایک ایسی رہنما ہیں جو لوگوں کو حالات کی سنجیدگی سے باخبر کرتی ہیں اور صاف انداز میں عوام کے لیے وضاحت کرتی ہیں۔‘‘
ارجنٹائن کے بڑے اخبار کلارین سے وابستہ مبصر ریکارڈو روا کا کہنا ہے، ”میرکل پینسٹھ برس عمر، فزکس میں پی ایچ ڈی، اور پندرہ برس سے اقتدار میں ہونے کے باوجود ‘عام شہریوں جیسا رویہ‘ رکھتی ہیں۔ وہ جذباتی نہیں بلکہ سائنسی انداز میں گفتگو کرتی ہیں اور اپنی تعریف کرنے کے بجائے ‘قیادت‘ کرتی ہیں۔‘‘
چانسلر میرکل جیسی شخصیت اور طرز قیادت والے حکمران اب دنیا میں ناپید دکھائی دیتے ہیں۔ کورونا وائرس کی وبا کے دوران بحران سے نمٹنے کے لیے ان کا یہ انداز کامیاب نظر آیا۔ سیاسی بیان بازی کی بجائے سنجیدگی سے بحران سے نمٹنے کی میرکل کی صلاحیت نے دنیا کے کئی مقبولیت پسند سیاست دانوں کے لیے بھی مسئلہ پیدا کیا ہے۔
امریکی میڈیا بھی صدر ٹرمپ کے بیانات کے مقابلے میں میرکل کی مثال پیش کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ لندن میں کورونا وائرس سے متعلق روزمرہ کی پریس بریفنگ میں کئی مرتبہ صحافیوں نے پوچھا کہ برطانوی حکومت جرمنی سے کیوں سبق نہیں سیکھتی۔
امریکی صدر ٹرمپ نے عالمی ادارہ صحت کے لیے فنڈنگ روکنے کا اعلان کیا تو چانسلر میرکل عالمی ادارے کی مدد کو آئیں۔
جرمنی میں سولہ وفاقی ریاستیں اپنے معاملات میں تقریبا خود مختار ہیں۔ تاہم چانسلر میرکل نے سب کو یکجا کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اسی طرح وہ عالمی سطح پر بھی موجودہ بحران سے نمٹنے کے لیے مربوط کوششوں کی حامی ہیں۔ امریکی صدر کے برعکس چانسلر میرکل بحران کا اجتماعی حل تلاش کرنے کے لیے کوششیں کر رہی ہیں۔
چانسلر میرکل دائیں بازو کی قدامت پسند جماعت سی ڈی یو سے تعلق رکھتی ہیں۔ لیکن ان کے حالیہ اقدامات کی وجہ سے بائیں بازو کے نظریات رکھنے والے مخالفین بھی ان کے معترف دکھائی دیتے ہیں۔
بائیں بازو کی سوشلسٹ پارٹی کے رہنما باڈو رامیلو وفاقی جرمن ریاست تھورنگیا کے وزیر اعلیٰ بھی ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ چانسلر میرکل پرسکون انداز میں اور فیصلہ کن انداز میں قیادت کر رہی ہیں جس کی وجہ سے ‘بہت پیچیدہ مسائل بھی آسانی سے حل‘ ہو جاتے ہیں۔
فی الوقت میرکل کے لیے یورپی اور عالمی سطح پر کورونا بحران سے نمٹنے کی کوششوں کا چیلنج ہے۔ یکم جولائی سے میرکل کو یورپی کونسل کی ششماہی قیادت بھی سنبھالنا ہے، یہ ذمہ داری ممکنہ طور پر ان کے لیے موجودہ صورت حال سے زیادہ مشکل ثابت ہو گی۔ کورونا وائرس کی وبا نہ شروع ہوتی تو اس وقت تک سی ڈی یو پارٹی چانسلر میرکل کے جانشین کا انتخاب کر چکی ہوتی۔ لیکن اب یہ انتخاب اس برس کے آخر تک ہی ممکن ہو سکے گا۔