کورونا وائرس: دنیا بھر میں کووڈ 19 سے ہلاکتوں کی تعداد 10 لاکھ سے بڑھ گئی

Coronavirus - Deaths

Coronavirus – Deaths

امریکہ (اصل میڈیا ڈیسک) دنیا بھر میں کورونا وائرس کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 10 لاکھ سے بڑھ گئی ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ دنیا کے بہت سے خطوں میں اب بھی کورونا کے نئے کیسز میں اضافے کی رپورٹس ہیں۔

جانز ہاپکنز یونیورسٹی کی جانب سے جاری ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں ہونے والی کل ہلاکتوں میں سے تقریباً نصف تعداد امریکہ، برازیل اور انڈیا میں ہونے والی اموات کی ہے۔

ماہرین کو خدشہ ہے کہ اموات کی کل تعداد موجودہ اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے اسے ’پریشان کن‘ اور ’ایک اذیت ناک سنگ میل‘ قرار دیا ہے۔ اپنے ویڈیو پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ ہمیں کسی ایک انسان کی زندگی کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ باپ تھے، مائیں تھیں، بیویاں، شوہر، بہن اور بھائی، دوست اور ساتھی تھے۔ اس مرض کے وحشیانہ انداز نے درد کو کئی گنا زیادہ کر دیا ہے۔

یہ صورتحال چین کے شہر ووہان میں کورونا وائرس کی وبا پھوٹنے کے تقریباً دس ماہ کے بعد سامنے آئی ہے۔

اب تک کورونا وائرس دنیا کے 188 ممالک میں پھیل چکا ہے اور اس نے تین کروڑ 20 لاکھ افراد کو متاثر کیا ہے۔ لاک ڈاؤن سمیت اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے دیگر اقدامات نے دنیا کی بہت سی معیشتوں کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔

ساتھ ہی ایک پر اثر ویسکین کی تیاری کے لیے کوششیں جاری ہیں۔

ادھر اقوام متحدہ پہلے ہی خبردار کر چکا ہے کہ ویکسین کی وسیع پیمانے پر دستیابی تک اس وبا سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 20 لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔

امریکہ میں کورونا وائرس کے مصدقہ کیسز کی تعداد 70 لاکھ سے بڑھ چکی ہے جو کہ دنیا میں کل متاثر ہونے والی آبادی کا پانچواں حصہ ہے۔ وہاں وبا کی دوسری لہر جولائی میں آئی تھی، اگست میں کیسز کم ہوئے لیکن اب یہ تعداد پھر بڑھ گئی ہے۔

انڈیا میں مصدقہ کیسز کی تعداد 60 لاکھ تک پہنچ چکی ہے جو کہ تعداد کے اعتبار سے امریکہ کے بعد متاثر ہونے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔ لیکن اگر انڈیا کی آبادی سے موازنہ کیا جائے تو وہاں متاثرین کی تعداد کے مقابلے میں ہلاکتوں کی تعداد کم ہے۔

برازیل لاطینی امریکہ میں سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ یہاں سو سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں اور متاثرین کی تعداد 40 لاکھ 70 ہزار ہے۔

اس کے علاوہ ارجنٹینا میں نئے کورونا کیسز کی تعداد میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور وہاں تعداد سات لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔

کورونا کے متاثرین اور اموات کا ریکارڈ رکھنے کے لیے ہر ملک اپنا الگ طریقہ کار استعمال کرتا ہے۔ اسی طرح مختلف علاقوں میں ٹیسٹنگ الگ طرح ہوتی ہے۔ اس سب کی وجہ سے ماہرین کا خیال ہے کہ کووڈ 19 کے متاثرین اور اموات کی اصل تعداد اس سے زیادہ ہوسکتی ہے۔

دنیا بھر میں کوئی 240 ممکنہ ویکسینز اپنے ابتدائی مراحل میں ہیں۔ ان میں سے 40 طبی آزمائش سے گزر رہی ہیں جس میں آخری مرحلے میں ہزاروں لوگوں پر ان کے ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔

عام حالات میں ویکسین بنانے میں کئی سال لگ جاتے ہیں۔ لیکن عالمی ہنگامی حالات کی وجہ سے سائنسدانوں نے اس کام کی رفتار کافی بڑھا دی ہے۔

یونیورسٹی آف آکسفورڈ میں بنائی جانے والی ویکسین اس وقت آخری مراحل میں ہے۔ اس نے مدافعتی ردعمل ظاہر کیا ہے اور ادارے نے ایک نجی کمپنی کے ساتھ صرف برطانیہ میں 10 کروڑ نسخے فراہم کرنے کا معاہدہ طے کر رکھا ہے۔

چین میں بھی ممکنہ ویکسین تیار ہو رہی ہے جس نے مثبت نتائج ظاہر کیے ہیں۔ بظاہر یہ حفاظتی اینٹی باڈیز بنا پاتی ہے اور اس وقت یہ چینی فوج کے پاس دستیاب ہے۔ تاہم اسے بنانے کی رفتار کے حوالے سے خدشات ظاہر کیے گئے ہیں۔

روس میں سائنسدان کہتے ہیں کہ وہ سپٹنک فائیو نامی ویکسین بنا رہے ہیں جو ابتدائی آزمائش میں ہے لیکن اس نے مدافعتی ردعمل ظاہر کیا ہے۔

رواں ماہ ایک رپورٹ کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ تمام رضا کار، جنھوں نے روسی ویکسین استعمال کی، میں اینٹی باڈیز بن گئی ہیں تاکہ وائرس کا مقابلہ ہوسکے اور منفی اثرات بھی ظاہر نہیں ہوئے۔

روس نے مقامی استعمال کے لیے اگست میں ویکسین کے لائسنس کی منظوری دی تھی۔ ایسا کرنے میں یہ پہلا ملک بن گیا تھا۔ یہاں بھی ویکسین بنانے کی رفتار، رضاکاروں کی کمی اور حفاظتی پہلوؤں پر خدشات موجود ہیں۔

امریکہ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکی شہری اکتوبر تک ویکسین تک رسائی حاصل کر لیں گے۔ تاہم وبائی امراض سے تحفظ کے امریکی ادارے نے کہا ہے کہ سنہ 2021 کے وسط تک ویکسین کی وسیع دستیابی کے امکانات بہت کم ہیں۔

عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ وہ سنہ 2021 کے وسط تک ویکسین کے وسیع استعمال کی توقع نہیں کر رہے۔

عالمی ادارہ صحت نے کووڈ 19 کے ایک ایسے ٹیسٹ کے بارے میں آگاہ کیا ہے جو کم اور درمیانی آمدن والے ممالک کے متاثرین میں منٹوں میں کورونا کی تشخیص کرسکتا ہے۔

اس ٹیسٹ کی قیمت صرف پانچ ڈالر ہے اور یہ کم آمدن والے ممالک میں کووڈ 19 کے خلاف حکمت عملی کو بدل کر رکھ سکتا ہے۔ ان ممالک میں پہلے ہی صحت کے عملے اور لیبارٹری کی کمی ہوتی ہے۔

دواساز کمپنیوں سے معاہدوں کے بعد چھ ماہ میں 12 کروڑ ٹیسٹ بنائے جاسکیں گے۔ عالمی ادارہ صحت نے اسے بڑی پیشرفت قرار دیا ہے۔

عام ٹیسٹ کی صورت میں کورونا وائرس کی تشخیص میں کافی وقت درکار ہوتا ہے اور اس طرح کئی ممالک میں کووڈ 19 کے انسداد کی حکمت عملی کو مشکلات درپیش ہیں۔ انڈیا اور میکسیکو جیسے کچھ ممالک میں انفیکشن کی شرح اتنی زیادہ ہے کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ کم رفتار سے ٹیسٹنگ کی وجہ سے وبا چھپی رہتی ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس نئے ٹیسٹ کے ذریعے گھنٹوں کے بجائے 15 سے 30 منٹ میں کووڈ 19 کی تشخیص کی جاسکتی ہے۔

دوا ساز کمپنیوں ایبٹ اور ایس ڈی بائیو سینسر نے بِل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کے ساتھ مل کر 12 کروڑ ایسے ٹیسٹ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس معاہدے میں 133 ممالک شامل ہوں گے۔