اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ نے دنیا کو ایک نئی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے جس کے مطابق اگر آئندہ جان لیوا کورونا وائرس پر قابو نہ پایا گیا تو اس کے بڑھنے سے عالمی معشیت کے دیوالیہ ہونے کاخدشہ بدستور موجود ہے ۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ رواں برس عالمی معیشت کو 10 کھرب سے 20 کھرب ڈالر کے درمیان نقصان پہنچ سکتا ہے۔۔ خیال رہے کہ یورپی یونین 2019 ء کے آخر سے معاشی طور پر پریشانی سے دوچار ہے۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ کرونا کے عالمی وباء میں تبدیل ہو گئی ہے۔ تاہم یہ تاریخ کی پہلی وبائی بیماری ہوگی جس پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
صوبہ سند ھ کے شہر کراچی میں کرونا وائرس سے متاثرہ مزید نئے کیسز سامنے آنے کے بعد مجموعی تعداد 18 ہوگئی۔ کراچی میں کورونا کے تصدیق شدہ مریضوں کی تعداد 14 ہوچکی ہے جن میں سے 2 مریض صحت یاب ہوکر گھر جا چکے ہیں۔ حکام کے مطابق پہلا کیس حیدرآباد میں سامنے آیا ہے، متاثرہ شخص شام کے راستہ دوحا سے پاکستان آیا جب کہ متاثرہ دوسرا شخص دبئی کے راستے ایران سے کراچی آیا ہے۔ دوسری جانب کرونا نے 115 ممالک میں اپنے خونی پنجے گاڑھ لئے ہیں دنیا بھر میں چار ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو گئے ہیںجبکہ فرانسیسی وزیر ثقافت اور پیرس ائیرپورٹ چیف میں بھی وائرس کی تصدیق ہو گئی ہے ۔ ایران میں 237 اموات جبکہ سعودی عرب میں مزید چار کیسز سامنے آئے۔ امریکی صدر سے قریبی رابطہ رکھنے والے دو کانگریس ارکان میں کرونا کا شبہ ہے۔ چین میں سترہ ہلاکتوں کے بعد تین ہزار ایک سو چھتیس افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
کرونا سے ایران میں 237 افراد ہلاک، فرانس اور اسپین میں تیس تیس، جاپان میں 16، امریکہ میں 27 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اٹلی میں کرونا وائرس سے خطرناک صورتحال پیدا ہوگئی اور ایک روز میں وائرس نے 136 افراد کی جان لے لی ہے۔ اٹلی میں کرونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد 366 سے تجاوزکرچکی ہے پورا ملک لاک ڈائون ہوگیا۔ اٹلی کے وزیراعظم جوزپے کوئٹے نے ملک کرونا وائرس کے پھیلائو کو اٹلی کی تاریخ کی سیاہ ترین گھڑی قرار دیا ہے۔ ملک کے تمام 6 کروڑ عوام کو گھروں تک محدود کردیا گیا ہے اور کسی بھی قسم کی چھوٹی یا بڑی تقریبات پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ کرونا وائرس سے امریکہ میں 22 اموات ہوئیں 546 افراد بیمار ہیں۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن میں چیف آف ہیلتھ ایمرجنسیز مائیکل ریان کا کہنا ہے کہ شاید وہ اس پر قابو پا سکتے ہیں، یا شاید یہ پھیل جائے۔ڈر اس بات کا ہے کہ کئی دوسرے ممالک میں بھی چین جیسی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ کسی کو بھی علم نہیں کہ یہ کتنا برا ہو سکتا ہے۔ یہ وائرس وبائی شکل اختیار کر سکتا ہے، ایک موسمی وباء میں ڈھل سکتا ہے یا پھر ایک عالمی وباء کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔ ابھی یہ کہنا ممکن نہیں کہ ان میں سے کیا ہو گا؟۔کرونا وائرس کی حالیہ وباء نے 2008ء کے بعد اب تک مارکیٹس کو سب سے بڑا نقصان پہنچایا ہے اور پوری دنیا میں شیئرز کی قیمتوں میں مجموعی طور پر 5کھرب ڈالر کی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ منڈیوں میں یہ خدشات موجود ہیں کہ یہ وائرس پہلے سے کمزور عالمی معیشت پر گہرے اثرات مرتب کرے گا۔ یہ خدشات بے بنیاد نہیں ہیں۔دنیا بھر کی معیشت کرونا وائرس کے باعث متاثر ہو گئی ہے اور ائرلائنز’ سیاحت سمیت کئی شعبوں کو اربوں ڈالرز کے نقصان کا اندیشہ ہے۔
تیل کے معاملے پر جاری سعودی عرب اور روس کے درمیان تنازعے نے عالمی معیشت کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے جس کے بعد تیل کی قیمتوں میں خاطرخواہ کمی آئی ہے۔اونیل انسٹیٹیوٹ فار نیشنل اینڈ گلوبل ہیلتھ لاء ، جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے ڈائریکٹر لارنس گوسٹن نے وال سٹریٹ جرنل میں لکھا کہ: ”ہم حفاظتی اقدامات سے دہشت کی طرف آگئے ہیں اور ایسے اقدامات کر رہے ہیں جو غیر ضروری اور کسی قسم کے شواہد کے بغیر ہیں، جن کے معیشت پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔”چین میں 20 کروڑ مہاجر محنت کش بیماری کے خوف اور سہولیات کے نہ ہونے کی وجہ سے نئے چینی سال کی چھٹیوں کے بعد اپنے آبائی علاقوں سے واپس ہی نہیں آ ر ہے۔ 14 دن تک فارغ رہنے کے لیے شہر کون آنا چاہے گا جہاں انہیں روز مرہ کے زیادہ اخراجات ادا کرنا پڑیں۔ حکومت اب نہیں واپس لانے کے لیے مختلف قسم کی لالچ دے رہی ہے، کیونکہ ان کی عدم موجودگی سے چین میں معیشت کو بحال کرنے کے اقدامات متاثر ہو رہیں۔ سب سے زیادہ متاثر ہونے والا چینی صوبہ ہوبئے کاروں کی صنعت، الیکٹرونکس، ہوابازی، دفاع اور تعمیرات کے شعبوں میں ایک اہم کڑی کی حیثیت رکھتا ہے، وائرس پر قابو پانے کی کوششوں سے معیشت پر برے اثرات مرتب ہونا شروع ہو گئے ہیں۔
جب 2003ء میں سارس کی وبائپھیلی تھی، جو اس سے پہلے پھیلنے والی قابل ذکر کرونا وائرس کی وبائتھی، تو چین عالمی معیشت کے لیے اتنا اہم نہیں تھا جتنا اب ہے۔ اس وقت چین کی معیشت عالمی معیشت کا 4 فیصد تھی اور 2015ء میں یہ 15 فیصد تھی۔ عالمی معیشت ایک اور زوال کے دہانے پر کھڑی ہے۔ یہ وائرس آخری دھچکا ثابت ہو سکتا ہے۔2008ء میں آنے والے عالمی معاشی بحران سے بھی زیادہ ہے اور دنیا سخت معاشی مشکلات کا شکار ہوسکتی ہے کیونکہ ایک طرف وائر س کے خوف سے عالمی تجارت رک گئی ہے جبکہ دوسری جانب پوری دنیا میں سیاحت متاثر ہوئی ہے جو کہ اربوں ڈالر سالانہ کی انڈسٹری ہے۔
دنیا کے کئی ماہرین اس سازشی تھیوری کو حقیقت قراردیتے ہیں کہ کورونا وائرس ایک حیاتیاتی ہتھیار ہے جو”غلطی”سے یا جان بوجھ کر انسانوں پر ٹیسٹ کرنے کے لیے پھیلایا گیا ہے رپورٹس کے مطابق امریکا’برطانیہ’اسرائیل’چین’روس ‘فرانس سمیت کئی ملکوں کے درمیان حیاتیاتی ہتھیاروں کی دوڑبھی کئی دہائیوں سے جاری ہے۔امریکی ذرائع ابلاغ سمیت براعظم افریقہ میں تباہی مچانے والے ایبولا وائرس کو امریکی بائیولاجیکل وارفیئرکا حصہ قراردیدیا گیا تھا جس سے 11ہزار310اموات ریکارڈ کی گئیں مگر اس کا پھیلائو افریقہ تک محدود رہا اسی طرح ”پیلا بخار”نامی وائرس جس سے 2013ء میں 45ہزار اموات ہوئیں ڈینگی وائرس اور سارس وائرس کو بھی عالمی طاقتوں کی جانب سے حیاتیاتی ہتھیاروں کے ٹیسٹ قراردیا جاتا رہا ہے۔تاہم ماضی کے ان وائرس کے مقابلے میں کورونا انتہائی ہلاکت خیزواقع ہوا ہے جو پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے کورونا وائرس کے بارے میں اب تک سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق یہ ایڈز’سمیت ماضی کے تمام وائرس کی خصوصیات لیے ہوئے ایک ایسا ہتھیار ہے جس کا کوئی توڑ ابھی تک سامنے نہیں آیا’یہ وائرس انسانوں اور جانوروں دونوں کو متاثر کر رہا ہے۔