کورونا کے خلاف جنگ، جھوٹ کا کوئی فائدہ نہیں

Coronavirus

Coronavirus

امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) وبائی مرض کی شدت اور اس کے پھیلا کی وسعت بھی جھوٹی سیاست کا نتیجہ ہے۔ ڈوئچے ویلے کے ایڈیٹر روڈییون ایبنگ ہازن کہتے ہیں کہ کورونا کے خلاف جنگ تب ہی کامیاب ہو سکتی ہے، جب تمام سائنسی حقائق میز پر رکھے جائیں۔

کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں سب سے اہم ہتھیار حقیقت ہے۔ چین کے معاملے میں واضح دیکھایا گیا ہے، جہاں کورونا وائرس سب سے پہلے ظاہر ہوا تھا۔ وبا کی شروعات ہی میں، جب اس پر قابو پانے کے امکانات زیادہ تھے، چینی کمیونسٹ پارٹی کے کارکنوں اور سکیورٹی فورسز نے طبی پیشہ ور افراد کو ڈرایا۔ ثبوت ضائع کر دیے گئے، حقائق سے انکار کیا گیا۔ نتیجہ پہلے قومی وبا، پھر عالمی وبا کی صورت میں سامنے آیا۔

ایسا ہی ایران کے کیس سے بھی ثابت ہوتا ہے۔ حکومت برسوں سے اپنے لوگوں سے جھوٹ بول رہی ہے۔ جب حکومت نے طویل ہچکچاہٹ کے بعد اور کچھ ملاں کی مزاحمت کے خلاف وائرس کیسدباب کے طور پر کارروائی کی تو عوام نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ “جو ایک بار جھوٹ بولتاہے ، اس کا کوئی یقین نہیں کرتا ، یہاں تک کہ اگر وہ سچ بھی بول رہا ہو۔” نتیجہ: سرکاری طور پراب تک 2500 سے زیادہ افراد کی موت کی تصدیق ہوئی ہے لیکن کوئی بھی ان اعداد وشمار پراعتبار نہیں کر رہا ہے۔

امریکا میں، جہاں حکومت “متبادل حقائق” کو خراج عقیدت پیش کرتی ہے، وائرس کے خطرات کوپہلے تو جھٹلایا گیا، پھر اتنے بڑے مسئلے کو بہت چھوٹا بنا کر پیش کیا گیا۔ جب اس وبا کے اثرات واضح طور پر سامنے آنے لگے تو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بادل نخواستہ کچھ کارروائی کی لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ بالآخر معیشت کو اپنے شہریوں کی صحت سے بالاتر یا اہم تر سمجھتے ہیں۔ نتیجہ: امریکا میں اب دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ کورونا انفیکشن پایا جاتا ہے۔

ایک وائرس سیاست کی پرواہ نہیں کرتا۔ بیان بازی اور جملے اسے متاثر نہیں کرتے ہیں۔ صرف ایک چیز جو اہم ہے وہ ہیں حقائق۔ وائرس کو صرف سائنسی مہارت اور احساس تناسب سے شکست دی جا سکتی ہے۔

دائیں بازو کے عوامیت پسندوں کے پاس معاشرے کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ یہ ایک اچھی علامت ہے کہ یورپ اور جرمنی میں سیاست دان بحران کے ماہرین سے مشورہ لیتے ہیں اور اپنے فیصلوں میں ان کے جائزوں کو بھی شامل کرتے ہیں۔ پچھلے مہینوں اور سالوں میں گرچہ دائیں بازو کے عوامیت پسند سیاست دانوں نے سیاست کا دھارا موڑنے کی کوشش کی۔ چند کا ذکر کرتا چلوں، یعنی جرمنی میں اے ایف ڈی، ہنگری میں وکٹر اوربان، اٹلی میں سالوینی۔

موجودہ صورتحال یہ واضح کرتی ہے کہ اگر معاملات سنگین ہو جاتے ہیں تو دائیں بازو کے عوامیت پسند سیاست دانوں کے پاس تعاون کرنے کے لیے کچھ نہیں ہوتا ہے۔

وبائی امراض سے پتہ چلتا ہے کہ ایسی سیاست جو حقائق کو نظر انداز کرے اور صرف عوامی رائے کو اپنے لیے بروئے کار لاتی ہے اس کی بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ نہ صرف یورپ میں بلکہ پوری دنیا میں ایسی سیاست کی قیمت بہت سے انسان اپنی جان دے کر چکاتے ہیں۔

اگر کچھ مہینوں میں اور سائنس کی مدد سے وائرس کو شکست دے دی گئی ہے تو امید ہے کہ اس حقیقت کا ادراک باقی رہے گا کہ اصل اہمیت سچائی کی ہے خاص طور سے سیاست میں۔