تحریر : ڈاکٹر امتیاز علی اعوان نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے تمام حکمرانوں میں پاکستانی وزیراعظم کی حثیت سے صنعتکار حکمران “میا ںبرادران ہر مسئلہ و شعبہ کوسرمایہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں یہ ان کی مجبوری یا شوق ہی ہو سکتا ہے جناب جا ن کی اما ن پا ئوں تو سچ بتا دوں جنا ب کے بزرگ تو ہندوستانی تھے وہاںمیں چک کے سیپی دار یعنی چک کے لوہار تھے، اور ترکھان،موچی ،نائی وغیرہ کو توزمیندارہرچھ ماہ کی فصلوںپر فصلانہ ہی دیا کرتے ہیں۔ سچ یہ ہے ہمارے ملک کے جتنے حکمرا ن ہو گزرے ہیں ان میں اکثر یت ہندوستانی تھے جناب انھیں پاکستان راس آگیا اور یہاں آکر لوہا کے صنعتکار یعنی سٹیل انڈسٹر یز کے بہت بڑے بز نس مین بن بیٹھے۔اور مزدروں کا اس طرح خون چوسا تو بھی کانوں کان خبر نہ ہواب پاک چائنہ معاشی راہداری کا مسئلہ کیا ہے ؟کیوں ہر صوبہ میں شور و غوغا ہے کہ راستہ طے نہیں پارہا۔ ادھر صوبہ خیبر پختونخواہ کی حکومت بھی اپنے صوبے کا راہداری و سرما یہ کا ری میں کمیشن یاپھر اس کوحق ما ن لیں ما نگ رہی ہے بصورت دیگر احتجا ج اے پی سی بلا کر معاملات بھی تہہ نہ ہو سکے۔
احسن اقبال نے تو کے پی کے کے تما م پہنترے بھا نپ کر ایسا چکر چلا یاکہ صو بائی حکومت وزیر اعلی سمیت سب چکرا گئے اب راہد اری روٹ تبد یلی کا شو شہ چھوڑ کر صو بائی حکو مت کو سرما یہ کا ری اور راہد اری میں روڑے اٹکا نے کے الزاما ت سے نواز ا تو اے پی سی والوں کو رات کی بجا ئے دن کو تارے نظرے آنے لگے سب کچھ بھو ل کر صوبائی حکو مت و وزیر اعلی میڈیا پر بیا نات دینے پے لگے ہوئے ہیں ہم نے راہداری روٹ پر کسی قسم کی غلط بیانی نہیں کی وجہ وفاقی حکومت میںسینئر کھلاڑی مو جو د ہیں جو بال ٹمپر نگ اور بیٹسمین کو کسی صورت پیچ پر جم کر نہیں کھیلنے دیتے وجہ پور ی کا بینہ ہی وہ لفظ لکھنا نہیں چا ہتا وہ ہے اس لیے کہ ان کے عزیز و اقارب و دوست احباب کروڑ سے کسی صورت کم نہ کمانے والے دیہاڑی دار ہیں جس دن کروڑ نہ بچے توکا روبار میں اس دن “مندا”رہا ہے وہ کمیشن اور کرائم زدہ نما ئندے پا رلمینٹرین کہتے ہیں آ ج نقصان ہو گیا ہے۔یعنی کمانا کروڑ تھا اور کمایا 75لاکھ ۔یعنی 25لاکھ کا نقصان ہو گیا ہے
رائے ونڈ اور اسکی ارد گرد کی تمام ز مینوں پر قابض ہوکرپھر سانپ کی پٹاری کھولیں گے کہ یہ رہا سانپ اور اس راستہ پر سفر کرے گا تاکہ اسکے قرب و جوارمیں انہی کی ملکیہ زمینوں پر کارخانے نصب ہوں اور کوئی ہوٹل دوکان بھی بنے تو سڑک کے اردگرد 15ہزار روپے مرلہ خریدی گئی زمین 5لاکھ سے کم فی مرلہ نہ بکے اور منافع کئی ہزاروں گنا وصول ہوان کے تحت الشعورمیںیہ کہانی اٹکی ہوئی ہے کہ لودھراں کے ضمنی الیکشن میں ترین کی جیت کی طرح اگلے انتخابات میں روپیہ پیسہ کا ہی مقابلہ ہو گا۔اور جس کے پاس نوٹوں کے ڈھیر ہوںگے وہی آسانی سے غریب عوامی ووٹوں کے ضمیرکو خرید سکے گا۔اسلئے شریفان رقم اینٹھنے میں زرداری جیسے شخص کو بھی ہر قیمت پر پیچھے چھوڑ دینا چاہتے ہیں اور اس کے تمام حواریوں کو ملا کر بھی اپنا سرمایہ سینکڑوں ہزاروں گنا زیادہ اکٹھا کرنا چاہتے ہیں۔
Imran Khan
تاکہ آئندہ انتخابات ہر صورت سویپ کرسکیںعمران خان بھی تمام نو دولتیوں جاگیرداروں وڈیروں کو جمع کرکے ٹکٹیں دے کرسیاسی دنگل میں اتارنا چاہتے ہیںتاکہ رنگ چوکھا آوے اور ووٹوں کی بند ربانٹ ہی نہ ہوبلکہ صحیح ریٹ لگا کرووٹ لے سکیں اور شریفوں کو ٹھینگا دکھا یا جاسکے مگر”تدبیر کندبندہ تقدیر زند خندہ “کہ انسان تدبیریںبنا اور اپنی پلاننگ کر رہا ہوتا ہے اور تقدیر ہنس رہی ہوتی ہے۔دراصل زمین پر حکمرانی صرف اللہ وحدہ لاشریک کی ہی ہے وہ جسے چاہے حکمران رکھے وہ شہنشاہ کو گدا کرڈالے اور گدائوں) فقیروں (کوشہنشاہ بنا ڈالے کہ حکم صرف اسی کا ہی چلتا ہے آخر شہنشاہ ایران فرعون نمرود شدادکیا ہوئے۔ زمین پر خدائی کے دعوے کرنے والوں کو کیا حشر ہوا تاریخ اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے۔ سکندر گیا تو دونوں ہاتھ خالی تھے اور کفن کی تو جیبیں بھی نہیں ہوتیں۔
حکمران تو ملکی خزانوں کو لوٹنے کے بعدچائنہ کی امدادیں بھی ہڑپ کرنے کو تیار بیٹھے ہیں چائنہ خواہ یہاں پر خود ہی سرمایہ خرچ کرلے جواء بہر حال اسی کا ہوتا ہے جس کی جگہ ہو۔ہم تو سعودی عرب جیسے مخلص دوست کے ساتھ بھی آنکھ مچولی کھیلتے ہیں کہ مکہ مدینہ اور خانہ کعبہ کی محبت جتلا کر زبانی جمع خرچ کرکے رقوم لے کر ڈکار جاتے ہیںاور چند سینکڑے فوج بھجوا دیتے ہیں اور عملاً کچھ نہیں کرتے ۔دوسری طرف فرینڈلی اپوزیشن کے راہنما ئوں کو شور مچانے کا اشارہ کردیتے ہیں تاکہ پتہ ہی نہ چلے کہ ہماری دراصل خارجہ پالیسی ہے کیا؟دراصل ہم نہ شیعوں میں ہیں نہ ھئیوں میںایران بھی تو ہمسایہ ملک ہے۔
ہمیں ایران عرب اختلاف کو مٹانے کے لیے بطور مسلم برادراپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ پورے عالم اسلام میں فرقہ واریت کی آگ نہ بھڑک اٹھے اگر ہم نے بشمول دیگر غیر عرب مسلمان ممالک اپنا آج کردار ادا نہ کیا تو فرقہ واریت کی جنگ کے شعلے عراق اورشام کی طرح ہمیں بھی بھسم کرڈالیں گے۔کہ ہم نے اپنی کو تاہیوں سے اور اسلام دشمنوںنے بھی فرقہ وارانہ اختلاف کو ہمارے ہاں پرورش کر رکھا ہے ہمارے حکمران ہر صورت ایسے اختلافات کو زندہ رکھ کر اپنا اقتدار قائم رکھنا چاہتے ہیں۔
Gold Mine
مگر بھاڑمیں پڑے سونا جو کانوں کو کھائے ہمیں ایسے صنعتکار سود خور حکمران نہیں چاہئیں جو صرف مودی کا استقبال بھی ذاتی مفادات کے تحت ہی کریں کہ کبھی بھاگ کر پناہ لینی پڑی تو ادھر ہی جا چھپیں گے۔کہ اب توجاتی امرا ء سے بھی اڑکر گھنٹے میں ادھر جا اتریں گے ۔مگر قدرت زلزلوں کے ذریعے انہیں مسلسل انتباہ کر رہی ہے کہ باز آجائو مگر انکے کان تک جوں تک نہیںرینگتی خانہ خدا میں بیٹھ کر اسلامی نظام کا وعدہ کرکے مقتدر ہوجانے کے بعدسودی نظام کے خاتمے پر اعلیٰ عدلیہ سے سٹے آرڈر جاری کروانے اور وعدہ کرکے مکر جانے پرخدائی عذاب ان پر لازماً آئے گابھوک سے خود کشیاں اورپاکستان بننے پر قربانیاںضرور رنگ لائیں گی۔
سرمایہ راکھ کا ڈھیرثابت ہو گا مسلمان ایک سوراخ سے دوسری دفعہ ڈسا نہیں جاسکتا ۔مگر یہاں تو عوام دو نہیں بلکہ تین دفعہ ایک ہی سانپ کے ڈسے ہوئے ہیں۔ ستر سال سے جو عوام دھوکے کھارہے ہیں انکے بپھرے ہوئے سیلاب کا بند لازماً 2018کے انتخابات میں ٹوٹ جائے گا اور یہ خس و خاشاک کی طرح بہہ جائیں گے۔زرداری ،عمرانی اور شریفوں کے نعرے سن سن کر ہمارے کان پک چکے ہیں عوام تو ہندو بنیوں نے جس گائے کے ذبح کرنے اور اس کا گوشت کھانے والوں کی قتل و غارت گری شروع کر رکھی ہے۔
اسی گائے کے نشان پر مہریں لگا کر اللہ کی کبریائی کی تحریک کو کامیاب بنانے کا عزم صمیم رکھتے ہیں تاکہ تمام ملکی مسائل مہنگائی ،بیروزگاری ،دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ہو اور بنیادی ضروریات کی اشیاء بجلی صاف پانی گیس علاج کھانے کی تمام ضروری اشیاء 5گناء کم قیمت پر اور ہمہ قسم تیل 3گناہ کم قیمت پر مل سکے اقلیتوں کو مساوی حقوق میسر ہوں مذہبی رواداری ہو۔فرقہ واریت کے سانپ کا سر کچلا جائے۔