کرپٹ بمقابلہ نیم کرپٹ

Eelection

Eelection

تحریر :روہیل اکبر
لاہور کے حلقہ این اے 120 میں اس وقت انتخابی دنگل اپنے عروج پر ہے یہ وہ سیٹ ہے جہاں سے میاں نواز شریف صاحب منتخب ہوئے تھے اور بعد میں کرپشن پر نااہل کردیے گئے اب اس حلقہ سے سابق نااہل وزیراعظم کی اہلیہ کلثوم نواز سمیت44 امیدوار الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں اس الیکشن میں تقریبا ہر سیاسی جماعت نے امیدوار کھڑا کیا ہے بلخصوص مسلم لیگ ن ،تحریک لبیک یارسول اللہ ،جماعت اسلامی ،ملی مسلم لیگ ،پیپلز پارٹی ، پیپلز پارٹی ورکرز،جسٹس پارٹی اور آپ جناب سرکار پارٹی قابل ذکر ہیں اس الیکشن میں دینی جماعتوں کی طرف سے تین امیدوار سامنے آئے ہیں کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ تینوں کسی ایک امیدوار پر متفق ہوتے تو انکے کے لیے جیت ناممکن نہ رہتی مگر ایسا نہ ہوسکاعوام کو شعور اور متحد ہونے کا درس دینے والے خود اسلام کے نام پر کسی ایک فرد کے نام پرمتحد نہ ہوسکے اور یوں انہوں نے اپنی یقینی جیت کو کسی اور کے پلڑے میں ڈال دیا۔

اس الیکشن میں سب ہی ایمانداری کا پرچم تھامے عوام کو اپنی اپنی کہانیاں سنا رہے ہیں سب سے پہلے مسلم لیگ ن کی الیکشن مہم کو ہی دیکھا جائے تو انہوں نے اس الیکشن میں جیت کو اپنی ایمانداری سے منسوب کردیا جنہوں نے اربوں روپے غیر قانونی طور پر ملک سے باہر بھیجے تقریبا37سال سے پاکستان بلخصوص پنجاب پر حکمرانی کرنے والوں نے لاہور کے باسیوں کو انکی بنیادی ضرورتوں سے محروم کردیا مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بچپن کے دنوں میں جب چھٹیوں پر میں اپنی والدہ ماجدہ (اللہ تعالی انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔آمین)کے ہمراہ ساہیوال سے بہاولپور کے ایک گاؤں36/DNBجایا کرتا تھا تو وہاں پر صاف پانی کا تصور بھی نہیں ہوتا تھا نہرسے کھال کی صورت میں گاؤں کے درمیان چوک میں کنویں کے نمکین پانی کے ساتھ ملکر میٹھا بننے والے پانی کو پورے گاؤں کی خواتین اپنے گھڑوں میں بھر کر لاتی تھیں جو بعد میں پینے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا جو اچھے زمیندار گھرانے تھے انہوں نے اپنے گھر میں ہی کنواں کھدوا کر اس میں نہر کے پانی کو شامل کرنے کا بندوبست کررکھا تھااور پھر وہی پانی پینے کے لیے استعمال ہوتا تھا جبکہ نہر اور کھال سے چلوبھر کر پانی پینا عام تھا کسی کو کوئی بیماری نہیں لگتی تھی مگر پنجاب پر طویل عرصہ سے حکمرانی کرنے والے خاندان نے اپنے شہر لاہور کو بھی نہیں بخشا میں لاہور کے سڑکوں پر اپنی جوانی کے بھر پور دن گذارنے کے بعد اب ڈھلتی عمر کو پہنچ چکا ہوں اور جب بھی کسی محلے کے واٹر فلٹریشن پلانٹ پر لوگوں کو پانی کی بوتلیں بھرتے دیکھتا ہوں تو مجھے اپنے گاؤں کا منظر یاد آجاتا ہے جہاں چند خواتین ایک رسی، ڈول اور چرخی کی مدد سے پانی بھرا کرتی تھیں فرق صرف یہ پڑا ہے کہ وہاں کنواں اور خواتین ہوتیں تھیں۔

یہاں ایک ٹیوب ویل کے ساتھ واٹر فلٹریشن پلانٹ لگادیا گیا جہاں سے مرد حضرات ٹونٹیوں کی مدد سے اپنی اپنی بوتلیں بھر رہے ہوتے ہیں یہ پانی ہماری بنیادی ضرورت ہے جسکے بغیر ہم زندہ نہیں رہ سکتے اگر گھروں میں آنے والا پانی ہم استعمال کرنا شروع کردیں تو تب بھی ہمارا زندہ رہنا مشکل ہے کیونکہ گھروں میں آنے والا سرکاری پانی اپنے ساتھ کیڑے مکوڑے اور گندگی کا جو سامان ساتھ لاتا ہے اس سے تو نہانے کو بھی جی نہیں کرتاپینا تو بہت دور کی بات ہے موجودہ حکومت جو ایک طویل عرصہ سے برسراقتدار ہے اپنے ووٹروں اور صوبائی دارالحکومت لاہور کے شہریوں کو انکی زندگی بچانے والی بنیادی ضروت پانی جیسی نعمت فراہم کرنے میں بری طرح ناکام رہی اسکے بعد باقی کی انسانی ضروریات جن میں روٹی ،کپڑا ،مکان ،صحت اور تعلیم شامل ہیں وہ تو سرے سے موجود ہی نہیں ہیں یہ صورتحال اس لاہور کی ہے جہاں حکمران خاندان رہ رہا ہے جہاں کے لوگوں سے ووٹ لیکر اقتدار حاصل کیا جاتا ہے رہ گئی بات پنجاب بھر کی اور پاکستان کی جہاں جہالت اور بدحالی ننگا ڈانس کررہی ہے چاول کی ایک دیگ یا ایک وقت کے کھانے پر لوگوں کا ہجوم بمعہ اہل وعیال گھنٹوں سیاست دانوں کی جھوٹی باتیں سننے کے لیے لنگر کھلنے کا انتظار کرتاہے جہاں تعلیم اور صحت کی سہولیات سرے سے موجود ہی نہیں جہاں لوگوں کو دن بھر کام کے بعد ایک وقت کی روٹی بھی بڑی مشکل سے نصیب ہوتی ہے کپڑے کے دو سوٹ اور ایک جوتی میں کئی کئی سال گذارنے والے جب کسی نہ کسی حادثے کاشکار ہوتے ہیں تو پھر اپنی بھیڑ بکریوں کو بیچ کر اپنا علاج کرواتے ہیں۔

اگر خدانخواستہ راجن پور ،ڈیرہ غازی خان اور جنوبی پنجاب کے رہنے والے کسی فرد کے سر میں چوٹ لگ جائے تو اسکا علاج صرف لاہور کے جنرل ہسپتال میں ہی ہوسکتا ہے ورنہ وہ موت کو اپنا مقدر جانے موجودہ حکمرانوں نے ہمیں پستی کی طرف دھکیلنے کا جو عمل جاری رکھا ہوا ہے اس میں ہمارا اپنا بھی بہت بڑا قصور ہے کہ ہم جانتے بوجھتے ہوئے بھی چوروں اور ڈاکوؤں کو اپنا ووٹ دیکر انہیں ملک اور قوم کے ساتھ مزید لوٹ مار کرنے کا لائسنس دے رہے ہوتے ہیں رہی بات ہماری عدلیہ کی وہ اربوں کی کرپشن میں ملوث افراد کو ایسے نکال باہر کرتی ہے جیسے میاں صاحب کو کیا ابھی کل ہی کی بات ہے ایک دوست پوچھ رہا تھا کہ جب سے ہوش سنبھالا ہے زرداری صاحب کو کرپٹ ہی سنا اور سمجھا لیکن بذریعہ عدالت تو صادق اور امین نکلے اتنے پاکدامن انسان پر شک کرتا رہا کیا میری بخشش ہوجائیگی جس پر میں نے کہا کہ اور بھی بہت سے جیالے موجود ہیں جن پر ہم بھی خوامخواہ شک کرتے رہے جن میں جناب ڈاکٹر عاصم صاحب ہیں جنہوں نے 479ارب کرپشن کا اعتراف کیا مگر وہ بھی عزت سے اب پاکستان چھوڑ گئے ،سندھ کے سابق وزیراطلاعات جناب شرجیل میمن صاحب بھی 5ارب کی کرپشن سے بری ہوکر آجکل دوبارہ الیکشن کی تیاریوں میں مصروف ہیں،رنگے ہاتھوں منی لانڈرنگ کرتے ہوئے گرفتار ہونے والی آیان علی آجکل دبئی میں خوشگوار زندگی گذار رہی ہے اور اسے پکڑنے کا جرم کرنے والا قتل کردیا گیا۔

جناب خورشید شاہ صاحب میٹر ریڈرہوتے ہوئے اربوں کی کرپشن میں ملوث پائے گئے مگر اسکے باوجود قومی اسمبلی میں وہ اپنا حقیقی اپوزیشن کا کردار اداکررہے ہیں ،جناب اسحاق ڈار صاحب جنہوں نے لکھ کر باقاعدہ منی لانڈرنگ کا اعتراف کیا وہ آجکل حکومت کے اہم وزیرہیں اور جسٹس باقر نجفی رپورٹ کے مجرم پنجاب حکومت چلارہے ہیں اور ایسے ہی کرپٹ افراد کے درمیان ایک نیم کرپٹ شخص بھی الیکشن میں حصہ لے رہا ہے جسکا منشور بھی اسی کی طرح کھلم کھلا ہے وہ روایتی سیاستدانوں کی طرح جھوٹ نہیں بولتا جو محسوس کرتا ہے وہ کہہ دیتا ہے اور اپنے آپ کو متبادل وزیراعظم کے طور پر حلقہ این اے 120میں بطور امیدوار پیش بھی کرچکا ہے جو ضرورت کے تحت کرپشن کے بھی قائل ہیں گورنمنٹ کالج لاہور کے پڑھے لکھے نواب ہیں جنکا انتخابی نشان تواہے جسکا اندر اور باہر ایک ہے اورجو آگ کی تپش کو برداشت کرکے انسان کے پیٹ کی آگ کو بجھاتا ہے وہ امیدوار ہے نواب ڈاکٹر امبر شہزادہ جو اپنے تلخ وشیریں جملوں کی بدولت عوام میں شعور بیدار کرنے کی کوشش کررہا ہے باقی رہی بات الیکشن کی وہ 17کو سب کے سامنے ہوگا جسکا نتیجہ ثابت کریگا کہ عوام کے اندر شعور کتنا موجود ہے اور ابھی ہماری ترقی کی کتنی منزلیں باقی ہیں۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر :روہیل اکبر
03004821200