تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری شہباز شریف بہت دبنگ شہرت رکھنے والی شخصیت ہیں معمولی غلطی پر کسی کمشنر ڈی آئی جی ڈی سی او ایس پی کو معطل کر ڈالنا اور انھیں صوبہ بدر کروانا ان کے کار ہائے نمایاں میں شامل ہیں۔ ہسپتالوں میں اصلاحات اور غریب مریضوں کو مفت ادویات کی فراہمی جیسے وعدے وعید بھی فرماتے رہتے ہیں۔ چو نکہ آج کل چل چلائو کا دور شروع ہے اس لیے بیورو کریسی بھی ان کے احکامات پر کان دھرتی نظر نہیں آتی۔
جن سپیشلسٹ ڈاکٹروں نے حج عمرے کرنے، اے سی گاڑیاں لینے، اعلیٰ فرنیچر سجوانے اور پھر اپنے بیٹے بیٹیوں کی شادیوں کے مکمل انتظامات کے وعدوں پر مخصوص کمپنیوں کی تیار کردہ ادویات لکھنے کے معاہدے کر رکھے ہیں وہ کیسے باز رہ سکتے ہیںانہوں نے تو ہر قیمت پر ان مخصوص ادویات کی فروختگی کروانے کا کوٹہ پورا کرنا ہے تاکہ ان کی مطلوبہ ڈھیروں رقوم اور کمپنیوں سے اس کا “معاوضہ”جلدوصول ہو۔
Medicines
انھیں اس کام سے کوئی طاقت منع کرنے والی ہے ہی نہیں کہ انہوں نے ایسے کئی چیف منسٹر اور بیورو کریسی کے کرپٹ افسران بھگتائے ہوئے ہیں۔حکومت نے مریضوں کو ریلیف تو کیا دینا تھی الٹا ادویات کی قیمتوں میں 300گنا اضافہ کرڈالا ہے مگر اس پر بھی ڈرگ مافیا اور ادویات ساز کمپنیوں کا پیٹ نہیں بھرا نھوں نے کوئی دو درجن انتہائی ضروری ادویات بازاروں سے گم کر رکھی ہیں یعنی اپنے کارخانوں کے خفیہ خانوںوگوداموں میںڈَمپ کرکے ذخیرہ اندوزی کر رکھی ہیں۔ جو کہ اسلام کی رو سے بھی انتہائی کریہہ عمل ہے ان ادویات میں جان بچانے والی ادویات زیادہ ہیں غالباً اٹھارہ ادویات جن میں8انجکشن اور10گو لیاں ہیں جو کہ شو گر ،امراض قلب ،بلڈ پر یشر اور ٹی بی سے متعلقہ ہیں۔
ساری دنیا جانتی ہے کہ ان بیماریوں کے مریض کو ایک دو خوراک بھی نہ مل سکیں تواس کی فوتیدگی کے بہت امکانات ہوتے ہیں۔اب مریض غریب ہو یا امیر اس نے توان مخصوص بیماریوں کی خوراک ہر قیمت پر لینی ہوتی ہے اب مریضوں کے لواحقین دوکانوں پر دھکے کھاتے پھر رہے ہیں اور ادویات ہیں کہ گدھے کے سر کے سینگوں کی طرح گم ہیں مگر تلاش بسیار کے بعد تین چار گناہ بلیک قیمتوں پر دستیاب ہونا ممکن ہے۔اس طرح اربوں کی فالتو کمائیاں متعلقہ پولیس،بیورو کریٹ ممبران اسمبلی وزراء مل جل کر غڑپ کر رہے ہیں ۔اگر کسی غیرت مند پولیس آفیسر نے ذخیرہ اندوزوں پر ہاتھ ڈال لیا تو اس کابھی وہی حشر ہو گاجیسے کہ ضلع بہاولنگر کے ڈی پی او کی طرف سے رات گئے شرابی مقتدر ٹولے کو پکڑنے پر صوبہ بدری کا خمیازا بھگتنا پڑا تھا۔
غریب مریض لٹ رہا ہے اور حکومت کھسیانی بلی کھمبا نوچے کی طرح تماشائی بنی ہوئی ہے۔عوام کا درست مطالبہ ہے کہ جتنے مریض ان دوائیوں کے فراہم نہ ہونے سے اللہ کو پیارے ہو گئے اتنے ڈرگ مافیا افراد بھی چوکوں پر لگے تختہ دار پر لٹکنے چاہیں کہ یہی انصاف کے تقاضے ہیں۔کیا ذخیرہ اندوزی کرنے والی کمپنیوں کو جھٹکا نہیں دیا جا سکتا؟ ہر گز نہیںچونکہ 95فیصد ادویات ساز کمپنیوں کے مالک مرکز و تینوں صوبوںکے وزیر سفیر ممبران اسمبلی یا ان کے رشتہ دار ہیں۔
خصوصاً غریب مریض ن لیگ پی پی پی اور تحریک انصاف کے راہنمائوں کو جھولیاں بھر بھر کر بد دعائیں دے رہے ہیںکہ ان سبھی سے خدائے عزو جل اقتداری کرسیاں چھین کرکسی اللہ کے بندے کے حوالے کردے ۔پاکستان میں ادویات کی قیمتیں بڑھادی گئی ہیں مگر ہمسایہ ملک انڈیا میں ہماری سابقہ قیمتوں سے بھی تین گنا کم قیمت پر زرعی و انسانی ادویات بک رہی ہیں جب کہ خام مال دونوں ممالک انھی بیرونی ملکوں سے درآمد کرتے ہیں۔
Medicines Prices
اب یہ درمیانی کھربوں کی رقوم کس طرح حکمران ،وزارت صحت،کرپٹ بیورو کریسی اور ڈرگ مافیا بندر بانٹ کر کے ہضم کر رہا ہے یہ راز کون کیسے اور کس طرح کھلے۔بہتر تو یہی ہے کہ سپریم کورٹ سویو موٹو لے کر دونوں ملکوں کی زرعی و انسانی ادویات کی قیمتوں کا موازنہ فرمالے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔ اور پاکستانیوں کو سابقہ قیمتوں سے ایک تہائی پر ادویات مہیا ہو سکیں۔
مقتدر پارٹیوں کو فرصت کہاں انھیں اپنی پڑی ہوئی ہے ضروری ادویات کے بغیر کتنے ہی غریبوں کے قبرستانی ویزے لگ جائیں انھیں اس سے کیا لینا دینا۔کوئی پانامہ لیکس ، کوئی وکی لیکس اورسوئس اکائونٹس سے کلئیر ننس چاہتا ہے کوئی دوسرے کوہٹاکر خود اقتداری کرسی پر براجمان ہو کر اپنا سکہ چلانا چاہتے ہیں۔
غریب مریضوں کی آہیں و سسکیاں عرش خداوندی تک پہنچ رہی ہیں۔کہیں ایسا نہ ہو جائے جیسے غریب معصوم نابالغ بچیوں کی رات کے پچھلے پہر کی چیخوںنے سمندر کے کنارے بنی عیاشیانہ آماجگاہوں کو سونامی طوفان سے چند سال قبل سمندر برد کرڈالا تھا۔مقتدر لوگو! خدا کے قہر کو دعوت نہ دو ڈرگ مافیا کی گردنیں مروڑو جان بچانے والی ادویات جلد بازاروں میں مہیا کرو کہ سلامتی اسی میں ہے وگرنہ