تحریر : ڈاکٹر شبیر احمد خورشید گذشتہ سولہ سالوں کی تاریخ سے یہ بات عیاں ہے کہ سندھ میں خاص طور اقتدار مافیہ کی مضبوطی کا کوئی جوا ب ہی نہیں ہے۔یہ اقتدار سے چمٹے لوگ حکمرانوں کی شکل میں لُٹیرے اور قومی خزانے کے ڈاکو ہیں انہیں سندھ کے عوام سے کچھ لینا دنا نہیں ہے ۔ پیپلز پارٹی نے سندھ میں جب سے اقتدار پر قبضہ کیا ہے اُس وقت سے سندھ دھرتی خون کے آنسو رو رہی ہےجہاں عوام کا کوئی پرسانِ حال ہی نہیں ہے۔غربت اور مہنگائی نے عوامکی کمر توڑ کے رکھ دی ہے۔سونے پہ سہاگہ پانی کا اس بارشوں کے موسم میں بھی مہینوں سے دور دور تک پتہ نہیں ہےاور بجلی سرکار کے گھر کی لونڈی جب چاہے چند منٹوں کے لئے آجا تی ہے۔حکومت اور ، بیورو کریسی حتیٰ کہ پولیس ، ہر ادارہ گذشتہ سات سالوں سے لُوٹ کھسوٹ میں مصروف ہے۔جس نے شہری زندگی کو بھتہ مافیہ ،لینڈ گریبرز، ٹارگیٹ کلرز،گاڑیاں اور فون اسنیچرز،ہائی ڈرنٹ اور واٹر ٹینکرز مافیہ، کے حوالے کر کے بھنگ کے نشے میں اقتدار کی باگیں سنبھالی ہوئی ہیں سندھ کے ہر ادارے کا حال یکساں ہے چاہے وہ فیڈرل گورنمنٹ کا ادارہ ہو یا صوبائی ۔عوام بے یارو مدد گار کٹی پتنگ کی طرح ڈول رہے ہیں۔
حکومتی وزراءاپنی اپنی جیبیں بھرنے میں شدو مد کے ساتھ مصروف ہیں۔پانی، بجلی،ٹیلیفون (فیڈرل گورنمنٹ کا ادارہ)سڑکیں، نالے، گلیاں اور بازار اقتدار ما فیہ کی کار کردگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔عوام کو ان لوگوں نے کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت دی ہی نہیں ہے۔ان کے محلوں میں پانی اور بجلیسمیت ہر سہولت وافر مقدار میں پائیجاتی ہے۔ گذشتہ جون 2015 کے ابتدئی دنوں میں ایک اندازے کے مطابق کے الیکٹرک کی نا اہلی کی وجہ سے قریباََتین ہزار کراچائٹ موت کا شکار ہو گئے اور وزیر اعلیٰ بھنگ کے نشے میں اے سی لگے ایوانوں میں خواب خرگوش کے مزے لوُٹتے رہے۔اور عوام دس دنوں تک ہزاروں کی تعداد میں موت کا شکار ہوتے رہے۔نا تو مرکزی ھکومت کو اس سلسلے میں غیرت آئی اور نہ ہی صوبائی حکومت کا کوئی عملی اقدام دیکھنے میں آیا ۔عوام ماہِ رمضان میں بھی حکومتی اور اداراجاتی عتاب کا شکار ہوتے رہے ۔مگر مجال ہے کہ کہیں سے آہ تک بھی نکلی ہو۔
کیا ہمارے اجداد نے پاکستان ا ن ناہل اور لُٹیرے لوگوں کے لئے بنایا تھا؟؟؟ کراچی کے لوگ گذشتہ تین ماہ سے مون سون کی بارشوں کے باوجودپانی کے قطرے قطرے کو ترس رہے ہیں اور شرجیل میمن اور پیپلز پارٹی کے ڈاکووں کے ہائی ڈرنت مسلسل چل رہے ہیں۔ناچیز جس سوسائٹی(لکھنﺅہاﺅسنگ سوسائٹی کورنگی میںرہتا ہے)وہاں گزشتہ تین ماہ سے ایک قطرہ بھی پانی کا ہمیں میسر نہیں ہواہے۔سوسائٹی میں ایک غنڈہ اپنے سیاسی حمائتیوں کے تھریٹ کے ذریعے بے ایمانی سے سوسائٹی کا جنرل سیکریٹی بن بیٹھتا ہے۔جوسوسائٹی کے فنڈز لوٹ لوٹ کرکر روڑ پتی بن گیا ہے۔ مگر سوسائٹی پر ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کرتا ہے۔مذکورہ سوسائٹی کے اکثر سیکٹر کچی آبادی یا کسی سلم کا منظر پیش کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔جہاں گلیوں میں خاک اڑ رہی ہے۔
K Electric
ہمارے جیسے لوگوں کی گلیاںپتھروں مٹی اور کوڑے کرکٹ سے اٹی پڑی ہیں اور یہ شخص، جس نے کے الیکٹرک کے ساتھ اپنے غنڈے حمائتیوں کے ذریعے مک مکا کر کے سارے رمضان روزے داروں کی نیندیں حرام کئے رکھیں۔ ہر پی ایم ٹی پر اس نے غنڈے بٹھا کر ہر دس منٹ کے بعد لائن ٹرپ کر اتا رہا ہے اور پندرہ سے بیس منٹ الیکٹرک معطل کر اکے روزے داروں کا پورا رمضان اس طرح تباہ کیا۔کوئی اس سے پوچھنے والا نہیں ہے۔ گزشتہ تین ماہ سے بعض سیکٹرز کی مکمل پانی بندی کی ہوئی ہے۔لوٹ مار یہ کایہ عالم ہے کہ،سوسائٹی میں کوئی غریب شخص بغیر کسی پیمنٹ کے کچرا اٹھا کر لے جاتا تھا اور اُس کچر سے ہی اپنی روزی روٹی پید کر لیتا تھا۔مگر سوسائٹی کے جنرل سیکریٹی نے اُس غریب کچرا اٹھانے والے کو بھگا کر اپنے پالتو کچرا اٹھانے پر لگا کر سوسائٹی کو نفع پہنچانے کے بجائے کچرا اٹھانے کے نام پر ہر گھر سے مبلغ سو روپے ماہانہ لینا شروع کر دیا ہے جو ماہانہ لاکھوں میں بنتا ہے۔ یہ پیسہ سوسائٹی کے کھاتوں میں جانے کی بجائے ۔ان لاکھوں روپوں پر اس کے پالتو غنڈے اور یہ خود پل رہا ہے۔ یہاں کے لوگ کس سے فریاد کریں کس سے منصفی چاہیں؟؟؟
ایک جانب نااہل حکومت ہے تو دوسری جانب کراچی کے سیاست کے مارے لوگ ہیں ۔کسی نے کیا خوب کہا تھا ” جن پتوں پہ تکیہ تھا وہ ہی پتے ہوا دینے لگے“ یہ دکھ درد کے مارے لوگ اپنی دکھ بھری داستان کس کو سُنائیں کون ہمارے دکھوں کا مداوا کرے گا۔سندھ کی نا اہل حکومت سے ہماری بار بار درخواست ہے کہ ہمیں پانی اور بجلی کے عذاب سے نجات دلائے۔ہائی ڈرنت مافیہ اور کے الیکٹرک کے عذاب سے کراچی اور اس کے گرد نواح کے لوگوں کی مفلوک الحالی پر رحم کھائے۔
ہم سجھتے ہیں کہ ہماری ان اپیلوں کا بے حس حکمرانوں پر کوئی اثر ہونے والا نہیں ہے مگر اتمام حجت کی غرض سے سندھ حکومت سے اپیل کیئے جا رہے ۔ہم اپنے موضوع سے خاصے آگے نکل آئے ہیں۔ لگتا یہ ہے سندھ حکومت کا خیال یہ ہے کہ لوگوں کو پریشان رکھا جائے تو وہ اپنے مسائل میں الجھے رہیں گے اور ظلم کی ناﺅ اسی ڈگر پر چلتی رہے گی۔لیکن ہرظالم کو یہ پتہ ہونا چاہئے کہ ظلم و بربریت کی عمر زیادہ طویل نہیں ہوا کرتی ہے،یہ رات بہر حال ڈھلنی ہی ہوتی ہے۔اگر ہم سندھ حکومت کی کار کردگی کا جائزہ لیں توپتہ چلتا ہے کہ گذشتہ سات سالوں کے دوران سوائے لُوٹ کھوسٹ کے سندھ میں کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔
Corruption
جب کرپٹ لوگوںپر ہاتھ پڑتا ہے تو ان کے اعلیٰ ایونوں سے بھی چیخوں کی آوازیں سنائی دینے لگتی ہیں۔اور پھر اداروں اور ان کے سربرہوں کو لپیٹے میں لے کر اُن کے خلاف طعن و تشنیع شروع کر دی جاتی ہے کسی کو اس کا دورانیہ اور اپنی زندگی کے ایام گنوائے جاتے ہیں تو کسی کو دھمکی دی جای ہے کہ اپنے دورانئے اور ہماری عمر کا تمہیں اندازہ ہی نہیں ہے۔اپنے خول سے اگر کوئی باہر نکلے گا تو ہم اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔مگر جب اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے تو فوراََ ہی پینترا بدلنے کی کوششیں شروع ہوجاتی ہیں۔مگر ان لوگوں کی بد قسمتی یہ ہے کہ چور چوری سے چلا جائے مگر ہیرا پھیری سے نہیں جاتا ہے۔
سندھ کے عوام سندھ کی اقتدار پر براجمان پیپلز پارٹی کی قیادت سے سوا ل کرتے ہیں کہ ذرا سچ سچ اپنے دورانئے کی کار کردگی تو پیش کریں ۔عوام کی بہتری کے کتنے کام اس سات سالہ دور اقتدار میں تم نے کئے ہیں؟؟؟ اس کا جواب انکے پاس کوئی بن نہیں پائے گا۔ہم پوچھتے ہیں کہ سیلابوں کی روک تھام کے لئے تم نے کتنے منصوبوں کی تکمیل کی؟بر ساتی پانی کے زیاں کو روکنے کے لئے تم نے کتنے چھوٹے ڈیموں کی منصوبہ بندی کر کے تکمیل کی؟ بلدیاتی نظام میں کیا اصلاحات کیں؟سڑکوں کی تعمیر تم نے کتنی کی؟عومی بہبود کی خاطر تم نے ٹرانسپورٹ کے شعبے میں کس قدر آسانیاں پیدا کیں ؟عوام کو ٹرانسپورٹ دینے کی بجائے تم نے پلوشن اور شور پھیلانے والے چنچی رکشاﺅں کا طوفان کیوں اٹھوایا؟چائنا کٹنگ کی کیوں روک تھام نہ کی؟
ناجائز پلاٹنگ کے کاروبار میں تم اور تمہارے سیاسی حلیف کیوں مصروفِ کار رہے۔ کیا اس دورانئے میں کوئی عومی بہبودکے کاموں کی بھی منصوبہ بندی کی؟ان کے پاس ہر مثبت سوال کا جواب منفی ہی ہوگا کیونکہ یہ لوٹ مافیہ سندھ کی جڑوں میں بیٹھ چکی ہے۔پیپلز پاری کے ان جیالوں کوہمارا مشورہ یہ ہے کہ مرکز سے درخواست کر کے ایک ایٹمی میزائل لے کرہم کراچی کے مصیبتوں کے مارے پیاس سے نڈھال بجلی کی کمی سے موت کے منہ میں روزانہ جانے کی بجائے،ایک لمحے میں مار کر ہمااراقصہ تمام کردےںکہ کراچی والوں کی روز کی جھک جھک ہی ہمیشہ کےلئے ختم ہوجائے۔نہ رہے گابا نس نہ بجے گی بانسری!!!!
Shabbir Khurshid
تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید 03333001671 shabbir23hurshid@gmail.com