مختلف کمپنیاں اپنی پروڈکٹ سیل کرنے کیلئے نئے نئے طریقے اپناتی ہیں۔ جس میں پرکشش کمرشل اور مختلف آفر متعارف کرائی جاتی ہیں۔ اس مقصد کیلئے کمپنیوں میں الگ سے مارکیٹنگ ڈیپارٹمنٹ بنائے جاتے ہیں اس کے علاوہ دوسری کمپنیوں کی خدمات بھی لی جاتی ہیں۔ ترقی کی اس دورڈ میں Quality کی بجائے Quantity اور Profit کو سامنے رکھتے ہوئے مارکیٹنگ کی جاتی ہے۔ اور اس پالیسی کو ہی کامیابی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ پاکستانی سیاست کے بزنس میں Quality کی بجائے Quantity کی پالیسی پر عرصہ دراز سے عمل ہو رہا ہے۔ جس کی سب سے زیادہ مثالیں بنک سے قرضہ لینے کے بعد کاروبارہ میں خسارہ ، سمجھدار آگ سے ہونے والے نقصان کو ظاہر کرکے کروڑوں ، اربوں روپے کے قرضہ معاف کروا لیے جاتے ہیں۔صرف 2009ء سے 2015ء کے دوران معاف کرائے گئے قرض کا حجم 345.4 ارب روپے ہے۔ جب ان قرض معاف کرانے والوں کے خلاف سینٹ یا اسمبلی میں آواز اٹھائی جائے تو متعلقہ ادارے ریکوری کے نام پرارب پتی معصوم طبقہ کو سپیشل آفر کی پیشکش کرتے ہیں کہ اتنے فیصد رقم جمع کرا دیں تو آپ کو کلین چیٹ جاری کر دیتے ہیں۔ اس کے باوجود بھی آج تک ریکوری نہیں ہو سکی۔
چیف جسٹس پاکستان محترم ثاقب نثار کی جانب سے بھی ایسی آفر کا سامنے آنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ملک کے ایک مضبوط ترین ادارے کا سربراہ ہو کر بھی اس کرپٹ نظام کے سامنے کتنے بے بس ہیں کہ قومی مجرموں سے منصب عدل و انصاف پر بیٹھ کر ایک لوکل مارکیٹ میں ہونے والی خریدو فروخت کی طرح بات کر رہے ہیں ۔ پہلے ایک ہزار ارب روپے جمع کرانے کیلئے کہا ، جب اس پر کوئی ردعمل سامنے نہ آیا تو 50فیصد کی ایک ساتھ ڈسکاؤنٹ کرتے 500 ارب روپے جمع کرانے کیلئے کہا۔ ملک میں سب سے زیادہ طاقتور ہونے کا دعوی کرنے والے چیف جسٹس اگر اس نظام میں اتنے بے بس ہیں تو عام آدمی کی کیا کیفیت ہو گی۔
ملکی سلامتی کے ادارے ہوں یا مالیاتی و انصاف کے ادارے یہاں تک کہ ایک عام پاکستانی بھی اس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ اس ملک کو لوٹنے والوں کی تعداد زیادہ نہیں لیکن انہوں نے انکوائری سے لے کر گرفت کرنے والوں تک ایسے تعنیاتی کر رکھی ہیں کہ ان کی کڑی سے کڑی ملائیں تو وہ انہیں چند خاندانوں سے نظر آتے ہیں جنہوں نے لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے۔تو انصاف ہو گا کہاں سے ؟ ریکوری کے نام پر سپیشل ڈسکاؤنٹ آفر کیسے کامیاب ہوں گی ۔
عوام جب عدالتوں کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتی ہے تو جواب ملتا ہے کہ ہم تو پیش ہونے والے گواہوں اور ثبوتوں کے پیش نظر ہی فیصلہ کر سکتے ہیں ۔ اور اگر کسی کیس میں عدالت کی طرف سے مظلوموں کیلئے کوئی حکم جاری کر بھی دیاجائے تو اس کو تاخیری حربوں کے ذریعے نظر انداز کر دیا جاتا ہے ، سانحہ ماڈل کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے جس کیلئے نئی JIT کا حکم عدالت سے ہونے کے باوجود پنجاب حکومت غیر سنجیدگی کا مظاہر ہ کر رہی ہے۔ حالانکہ موجود حکومت کے وزارا کے نام بھی اس کیس میں موجود نہیں ، لیکن کچھ تو ہے جس کی پردہ داری کے باعث ابھی تک JIT کا اعلان نہیں کیا گیا۔ اسی طرح سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی بغیر ہتھکڑی کے گرفتاری ہوتی ہے اور اپنی مرضی کی جیل منتخب کرتا ہے جبکہ دوسری طرف ایک استاد اور ایک صحافی کو ہتھکڑی میں پوری قوم کے سامنے دیکھا کر ان کی ذلیل و خوار کیا جاتا ہے۔
اگرچہ موجود حکومت میں وزیر اعظم عمران خان کے چند بہترین اقدام ان کے محب وطن ہونے اور خلوص نیت کو ظاہر کرتے ہیں ۔ تو دوسری طرف کرپشن اور قتل کے کیس میں نامزد ملزم شہباز شریف کوچیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی بنانے پر مجبور نظرآتے ہیں۔ کرپٹ نظام کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ ایگزیکٹو پوسٹ پر موجود وزیر اعظم اور منصب عدل پر فائز چیف جسٹس بھی بے بسی کی علامت بنے نظر آتے ہیں ۔ یہ بات اب عوام کو سمجھ جانا چاہیے کہ ملک قوم کی خوشحالی اس نظام میں ممکن نہیں ہے۔