اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان کی ایک عدالت نے اربوں روپے کی بدعنوانی کے دو مقدمات میں سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر عاصم حسین کی درخواست ضمانت منظور کر لی ہے۔
احتساب عدالت میں ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف 479 ارب روپے کی بدعنوانی کے الزامات کے تحت دو مقدمات چل رہے تھے۔
ان کے وکلا نے ان کی صحت کی خرابی کے باعث ضمانت کی درخواست سندھ ہائی کورٹ میں دائر کر رکھی تھی جس پر بدھ کو ریفری جج جسٹس آفتاب گورڑ نے پچاس لاکھ روپے کے دو ضمانتی مچلکوں کے عوض منظور کر لیا۔
چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے اس درخواست پر ڈویژنل بینچ کے اختلافی فیصلے کے بعد جسٹس گورڑ کو ریفری جج مقرر کیا تھا جنہوں نے طبی بنیادوں پر ڈاکٹر عاصم کی درخواست ضمانت کی منظوری دی۔
مبینہ دہشت گردوں کو اپنے اسپتال میں علاج کی سہولت فراہم کرنے کے ایک مقدمے میں ڈاکٹر عاصم کی ضمانت پہلے ہی منظور ہو چکی ہے۔
ڈاکٹر عاصم حسین سابق صدر آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک سینیئر راہنما ہیں۔
وہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت 2008ء سے 2013ء کے دوران وفاقی وزیر برائے پیٹرولیم رہے ہیں۔
ان پر الزام ہے کہ انھوں نے اپنے منصب کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے زمینوں کی غیرقانونی طریقے سے منتقلی اور دیگر بدعنوانی کے تحت قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا۔
وہ خود پر لگنے والے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔
رینجرز نے اگست 2015ء میں ڈاکٹر عاصم حسین کو جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گردوں کو اپنے اسپتال “ضیاالدین ہاسپیٹل” میں علاج کی سہولت فراہم کرنے اور بدعنوانی میں ملوث ہونے کے الزامات کے تحت گرفتار کیا تھا۔
90 دن تک حراست میں رکھنے کے بعد انھوں نے ڈاکٹر عاصم حسین کو پولیس کے حوالے کر دیا جہاں سے بعد ازاں قومی احتساب بیورو نے انھیں اپنی تحویل میں لے کر ریفرنسز دائر کر دیے۔
پیپلز پارٹی ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف کی جانے والی کارروائی کو مبینہ طور پر سیاسی انتقام قرار دیتی ہے جب کہ حکومت کا کہنا ہے کہ ملک کے ادارے اور عدلیہ آزاد ہیں جو قانون کے مطابق کسی بھی غیرقانونی سرگرمی پر اپنی کارروائی کرتے ہیں۔