سب پاکستانی جانتے ہیں کہ کرپشن نے پاکستان کو گنگال کر دیا ہے۔اس کی واحد وجہ مقتدر لوگ ہیں۔ چاہے وہ سیاست دان ہوں ، بیروکریٹس ہوں یا فوجی ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں جن کے ہاتھ میں اقتدار ہوتا ہے،وہ جتنی چائیں کرپشن کریں ،انہیں کوئی بھی روک نہیں سکتا ہے؟۔ہمیں یاد ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے اپنے دور حکمرانی میں سندھ کے وزیر اعلیٰ جام صادق صاحب کو کرپشن پر طنز کرتے ہوئے ایک دفعہ کہا تھا” کہیں ساری کراچی نہ بیچ دینا”بے نذیر بھٹو صاحبہ نے اپنے دور حکمرانی میں بیان دیا تھا کہ سیاستدان پاکستان میں سرمایا اس لیے نہیں رکھتے، کیوں پاکستان میں سرمایا محفوظ نہیں۔ اس سے سیاست دانوں کو شہ ملی۔ ہم نے دیکھا کہ ٹرانسپرنسی انٹر نیشنل نے آصف علی زرداری صاحب کی درجنوں بیرون ملک پراپرٹیز کی لسٹ شائع کی۔ زرداری صاحب کے سوس اکاونٹس کا چرچا تو عدالتوں میں بھی سنا جاتا رہا۔ زرداری صاحب بین القوامی طورمسٹر ٹین پرسنٹ بھی مشہور ہوئے۔
زرداری صاحب کے دور میں امریکا نے کہاتھا کہ حکومت کو امداد نہیں دیں گے، کیونکہ حکومت کرپٹ ہے۔ ہم این جی اوز کے ذریعہ امدادخرچ کریں گے۔پھر اسی آڑ میںامریکا نے اپنی این جی او” سیف دی چلڈرن” کے ذریعے ڈاکڑ شکیل آفریدی کو استعمال کر کے، شیخ اُسامہ بن لادن تک ایبٹ آباد اس کی رہائش تک رسائی حاصل کی۔یہ تو صرف ایک کیس سامنے آیا، نہ جانے اور کتنی این جی اوز کے ذریعے امریکا اورمغرب امداد کی آڑ میںپاکستان میں کہاں کہاں کا نقصان پہنچاتے رہے ہیں۔نواز شریف کا بیان بھی پریس میں آیا تھا کہ کرپشن کرنے والے ثبوت نہیں چھوڑا کرتے۔ ڈکٹیٹر پرویز مشرف صاحب کو بھی سعودی حکمرانوں نے قیمتی فلیٹ کے لیے پیسے دیے، یہ بھی کرپشن ہے۔ کئی فوجی جرنلوں کی کرپشن کے واقعات پریس میں آئے ۔ فوجی قانون کے مطابق انہیں سزائیں بھی ہوئی۔ جب ملک میںا یسا ماحول پیدا ہو ا، تو سیاست نے ایک انڈسٹری کی شکل اختیار کر لی۔الیکشن لڑنے کے لیے کروڑوں لگا ئواور الیکشن جیتنے کے بعد کرپشن کرکے اربوں کمائو۔
یہاں نون لیگ کے ایک سیدھے سادھے ممبر قومی اسمبلی بوٹا صاحب کا وقعہ بیان کرنا بڑا سبق آموز ہے۔بوٹا صاحب پر عدالت میں کرپشن کامقدمہ چل رہا تھا۔ ایک دن ملتان کے مقامی اخبار میں عدالت کے باہر بوٹا صاحب کی ہتھکڑی لگی تصویر اس شہ سرخی کے ساتھ لگی ۔ کہ ”کیا میںبے وقوف ہوں کہ اپنا لگایا ہوا پیسا واپس نہ وصول کروں”خبر میں بوٹا صاحب نے تفصیل بیان کی ،کہ نون لیگ نے دو قومی اسمبلی کی سیٹوں پرمجھ سے کروڑوں روپے خرچ کروائے ہیں۔ کیا میں اب اپنے پیسے واپس وصول نہ کروں؟ پتہ نہیں بوٹا صاحب کی کرپشن کا عدالت نے کیا فیصلہ کیا؟ہم نے نون لیگ کے ایک ممبر قومی اسمبلی کا صرف ایک واقعہ بیان کیا ہے، تاکہ بات آسانی سے سمجھ میں آجائے۔ ساری سیاسی پارٹیا ں ایسا ہی کرتی ہیں پھر انوسمنٹ کرنے والے کو کرپشن کی کھلی اجازت دیتی ہیں۔ پرمنٹ،پلاٹ، نوکریوں، ٹھیکوں اور ترقیاتی فنڈ میں کرپشن کر کے غریب عوام کے ٹیکسوں میں سے پیسا وصول کیا جا تاہے۔ ہم نے کرپشن کے طریقے سمجھنے کے لیے، پاکستان کے ٹاپ کے سیاستدانوں اور حکمرانوں اور کی سوچ کی عکاسی اور ایک ٹسٹ کیس عوام کے سامنے رکھا ہے۔
صاحبو! پاکستان میں ایک ایسی نظریاتی سیاسی دینی جماعت بھی موجود ہے، جیسے ہم پچھلے پچپن برسوں سے قریب سے مشاہدہ کرتے رہے۔ اس کے لاکھوں چاہنے والے اس جماعت کو ماہ وار اعانت دیتے ہیں۔ اسی اعانت اور الیکشن کے وقت خصوصی الیکشن فنڈ کی بنیاد پر اپنے لوگوں کو الیکن لڑاتی ہے ۔ اس کا کوئی فرد خود سے الیکشن میں کھڑا نہیں ہوتا۔اس کی شوریٰ الیکشن لڑنے والوں کے ناموں کا اعلان کرتی ہے۔ کراچی کی ایک یوسی میں راقم کو ناظم کا الیکشن لڑایا گیا۔ برسوں سے ماہوار اعانت دینے کے علاوہ ہم نے بھی خصوصی الیکشن فنڈ اپنا حصہ ڈال کر الیکشن لڑا۔اسی طرح کراچی میں این اے ٢٥٠ پر عبدالستار افغانی مرحوم، جو اس سے قبل دو ٹرم کراچی کے میئر رہ چکے تھے، کو اس جماعت نے الیکشن میں کھڑا کیا۔ راقم کوعبدالستار افغانی صاحب کے الیکشن انچارچ کی ذمہ داری سونپی گئی۔مقابلے میں دہشت گرد لسانی تنظیم ایم کیو ایم کی نسرین جلیل صاحبہ تھیں۔ عبدالستار افغانی صاحب این اے ٢٥٠ کا الیکشن جیتا۔الیکشن کے سارے اخراجات راقم کے ہاتھوں سے خرچ ہوتے تھے۔ مخالفوں کے جلسے لاکھوں کے خرچے سے ہوتے تھے۔ ا
س کے مقابلے میں اس نظریاتی جماعت کے جلسے ہزاروں میں ہوتے تھے۔ خصوصی الیکشن فنڈ بھی نظریاتی لوگوں ہی سے لیا جاتا ہے۔ اس نظریاتی جماعت کے امیدوار نہ اپنے پلے سے کروڑوں خرچ کرتے ہیں ۔نہ ہی الیکشن جیت کر اربوں کی کرپشن کرتے ہیں۔دو دفعہ کراچی جیسے میٹرو پولیٹن شہر کامیئر رہنے والا اور ایک دفعہ قومی اسمبلی کا ممبر رہنے والا، عبدالستار افغانی لیاری میں اسی گز کے خاندانی فلیٹ میں رہتا تھا۔ جب فوت ہوا تو اسی فلیٹ سے اس کا جنازہ نکلا۔ اس نظریاتی جماعت کے ایک سابق امیر سید منور حسن صاحب نے کرپشن کے حوالے سے ایک دفعہ میڈیا میں بیان دیا تھا کہ اس نظریاتی جماعت کے بلدیاتی،صوبائی، قومی اسمبلی اور سینٹ میں مختلف وقتوں میں تقریباً ایک ہزار کے قریب لوگ الیکشن میں کامیاب ہوئے۔ اللہ کاشکر ہے کہ ان میں سے ایک پر بھی کرپشن کا الزام نہیں لگا۔ اسی طرح پاکستان کی سپریم کورٹ میں نواز شریف کے مقدمے کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے ریماکس دیے تھے کہ اگر پاکستان کے آئین کی دفعہ ٦٢۔٦٣ پر پاکستان کے سیاستدانوں کو پرکھا جائے تو صرف جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب ہی پورے اتر سکتے ہیں۔
یہ نظریاتی سیاسی دینی جماعت ہمیشہ سے پاکستان کے عوام کو کرپشن فری پاکستان کے لیے قریہ قریہ بستی بستی بلاتی رہتی ہے۔ سابق امیر قاضی حسین احمد صاحب نے پورے پاکستان میں کرپشن فری مہم چلائی۔ آئی جی آئی اتحاد کے وقت قاضی صاحب نے نواز شریف صاحب سے بھی التجا کی تھی کہ آپ اپنے اثاثہ جات کو ڈکلیئر کردو۔ نواز شریف صاحب نے اپنے والد مرحوم محمد شریف صاحب سے مشورے کے بعد قاضی صاحب کو جواب دیا تھا کہ ہم تجارت پیشہ لوگ ہیں ایسا نہیں کر سکتے۔ اس کے بعد سراج الحق صاحب نے بھی کرپشن فری پاکستان آگاہی کے لیے ٹرین مارچ، سیمینار، ریلیاں اور جلسے کیے۔ مگر عوام کے اندر اتنی پذیرائی نہیں ملی۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ پاکستانی عوام کرپشن فری پارٹی کے لوگوں کو منتخب کر کے پارلیمنٹ میں بھیجتے۔ مکمل طور پر وہی سیاسی پارٹی کرپشن ختم کرسکتی ہے جو خود ختم کرپشن فری ہیں اور اس کے پاس ایک ٹیم بھی موجود ہے۔لیکن اللہ کی مشیت کے سامنے کسی کی بھی نہیں چل سکتی۔ انبیا ء کی سنت ہے کہ ایک ایک بندے کے پاس جا کر پر امن طریقے سے اصلاح کی کوشش کی جائے۔ اسی پر یہ نظریاتی جماعت عمل کر رہی ہے۔ جب اللہ نے چاہا کامیابی ملے گی۔
عمران خان صاحب نے تحریک انصاف کے پیلٹ فارم سے کرپشن کے خلاف مہم چلائی ۔ عوام نے عمران خاں کی حوصلہ افزائی کی۔ ٢٠١٨ء کے قومی الیکشن میں پاکستان کے عوام نے عمران خان صاحب کو کرپشن فری پاکستان کے منشور پر ووٹ دیے۔ عمران خان نے وزیر اعظم پاکستان کا حلف اُٹھایا۔ اب عمران خان صاحب ملک چلا رہے ہیں۔ حکومتی اخراجات میں ممکن حد تک کفایت شعاری کو راج کیا۔پاکستان کی پارلیمنٹ اور صوبائی گورنر ہائوسزکو عوام کے لیے کھول دیا۔نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے دور حکومت کے اللے تللے اخراجا ت کو لگام دی۔عمران خان صاحب نے کرپشن فری پاکستان کے لیے، نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ کے خلاف جاری مقدمات کی مکمل حمایت کی۔ اعلان کیا کہ عوام سے لوٹا ہوایک ایک پیسا وصول کر کے پاکستان کے غریب عوام کے خزانے میں داخل کرے گا۔ عمران خان کا دامن کرپشن سے پاک ہے۔
نہ بیرون ملک میں جائیداد ہے نہ کاروبار۔ عمران خان صاحب کے خلاف مخالوں نے کرپشن کا مقدمہ قائم کیا۔ پاکستان کی سپریم کورٹ نے عمران خان صاحب کو بری کرتے ہوئے، صادق و امین کا سرٹیفیکیٹ دیا۔ عمران خان خودتو کرپشن فری ہے۔ مگر اس کے ارد گرد کھوٹے سکے ہیں۔نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے لوٹوں کوساتھ ملایا ہوا ہے۔نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے ٣٥ سال سے پاکستان پرحکومت کرنے کے لیے باریاں بانٹی ہوئی تھیں۔ سارے بیروکریٹس ان کے لگائے ہوئے ہیں،جو آئے دن عمران خان کے راستے میں روڑے بچھاتے رہتے ہیں۔ عمران خان کو اپنے اردگرد کرپٹ لوگوں سے بتدریج جان چھڑاکر اپنی پارٹی کے ایمان دار لوگوں کولگانا چاہیے۔ چینی آٹے کے مصنوئی بحران پید ا کرنے والوں کے خلاف کاروائی کرنی چاہیے۔ انکواری کمیشن نے مزید تین ہفتے کا وقت مانگا ہے جسے قابینہ نے دے دیا ہے۔ تحقیق شفاف طریقے سے ہونی چاہیے۔ قصوار وار کو قرار واقعی ہی سزا ملنے چاہیے۔
ذرائع کہتے ہیں عمران خان سخت قسم کا ایڈمنسٹریٹر ہے۔ جو سینیٹ انتخاب میں پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ کاسٹ کرنے والوں درجوں صوبائی اسمبلی کے ممبران کے خلاف ایکشن لے سکتا ہے۔ خیبر پختونخواہ کے تین وزیروں کی پارٹی پالیسی سے روگردانی کرنے پر عہدوں سے فارغ کر سکتا ہے۔ وہ آٹے چینی کا مصنوی بہران پیدا کرنے والوں کو بھی نہیں چھوڑے گا۔عمران خان کوکرپشن پکڑنے کے لیے لمبے عدالتی نظام کے قانون میں کوئی تبدیلی لانا چاہیے ۔تاکہ جلد از جلد کرپٹ لوگوں سے پیسا واپس لے غریب عوام کے خزانے میں داخل کیا جا سکے۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے مضبوط سوشل میڈیا ٹیموں نے عمران خان کے خلاف منفی پروپیگنڈے کا طوفان کھڑا کیا ہوا ہے۔پہلی حکومتوں کا مراعات یافتہ میڈیا بھی یہ کام زور و شور سے کر رہا ہے۔ عمران خان کو اس کا موثر توڑ کرنا چاہیے۔ کرپشن کوختم کرنے کا عمران خان کے پاس آخری موقعہ ہے۔ خدا ناخواستہ عمران خان کرپشن ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا اور آیندہ الیکشن میںکرپٹ سیاست دان پھر سے اقتدار میں آجاتے ہیں توپاکستان کو دیوالہ کرکے چھوڑیں گے۔ کررونا وائرس کی وجہ سے کرپشن کی طرف پر دھان ہلکا ہو گیا ہے۔اللہ کرے پاکستان کو کررونا سے جلد از جلد نجات ملے، تاکہ کرپشن کیسزپر عمران خان کی توجہ کا موقعہ ملے۔ ملک میں کرپشن ختم کرنے کے خواہش مند سارے عناصر کو بھی سیاست کوایک طرف رکھ کرعمران خان کی کرپشن ختم کرنے کے مشن کا ساتھ دینا چاہیے ورنہ تاریخ انہیں کبھی بھی معاف نہیں کرے گی۔ اللہ پاکستان میں کرپشن کو جڑ سے اُکھار دے آمین۔