یہ صحیح ہے کہ کرپشن اور مہنگائی پاکستان کو کھا گئی ہے اور عمران خان صاحب وزیر اعظم پاکستان ابھی تک کچھ بھی نہیں کر سکے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ آج کل ملک میں کرپشن کے متعلق اتنی آگاہی ہو گئی ہے جیسے کرکٹ کی۔ شاہد یہ بھی عمران خاں کے کرکٹ کے بیک گروائنڈ کی وجہ سے ہے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ کرپشن کو عوام میں اُجاگر کرنے کے لیے جماعت اسلامی کے سابق امیر اور سینیٹر مرحوم قاضی حسین احمد صاحب نے شروعات کی تھیں۔ مگر یہ بھی صحیح ہے کہ عمران خان آپ نے کرپشن سے نفرت کے شعور کوعوام میں بامِ عروج تک پہنچا یا۔ یہ ایک اچھا شکون ہیں۔ پاکستان کے ووٹروں میں کرپشن کے متعلق زیاد ہ سے زیادہ معلومات ہونگی تو وہ اپنے نمائیندے منتخب کرنے میں آسانی محسوس کریں گے۔
کچھ عرصہ قبل مجھے ایک دفعہ کوئٹہ بلوچستان میں پاکستان کے ایک بڑے ٹھکیدار سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ یہ ٹھکیدار صاحب پاکستان بننے سے پہلے انگریزوں کی حکومت میں بھی ٹھکیداری کرتے تھے۔ اس نے مجھے اپنی جدو جہد پر لکھی گئی کتاب پڑھنے کے لیے دی۔ اس کتاب میں ان کی زندگی کا حالات لکھے ہوئے تھے۔ ایک مزدور سے ترقی کرتے ہوئے ،بہت بڑے ٹھکیدار بننے کی جدو جہد لکھی ہوئی تھی۔ وہ اس طرح کہ میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازم تھا۔ وہ کمپنی ہائوس ہولڈ آٹمز یعنی سلائی مشینیں،ریفریجریٹرز، گیس کے کوگنگ رینج، گیس کے گیزر وغیرہ فروخت کرتی ہے۔ بولان یونیورسٹی میں نصب کرنے کے لیے اس ٹھکیدار نے کمپنی سے گیس کے گیزرز خریدے تھے۔کمپنی کی طرف سے گیس کے گیزروں کی تنصیب کے متعلق وزٹ کے دوران میری ان سے ملاقات ہوئی۔ملاقات کے دوران ملکی سیاست اور دوسری باتوں کے علاوہ کرپشن پر بھی بات ہوئی۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ آپ کچھ بتا سکیں گے کہ انگریز بھی رشوت لیتے تھے ۔ ٹھکیدار صاحب نے جواب میں بتایا کہ ہاں لیتے تھے مگر بہت ہی کم۔ میرے سوال کی کتنے کم ۔ تو ا نہوں نے کہا کہ اورسیئر صاحب کو ہم ایک پرسنٹ رشوت دیتے تھے تم ہمیں بل ملتا مگر وہ شرمندہ ہو کر رشوت لیتا تھا۔
صاحبو! اب پاکستان میں شرم نام کی کوئی چیز نہیں۔ پاکستان میں رشوت ہی رشوت ہے۔ کرپشن ہی کرپشن ہے۔کسی نے کرپشن میں ایم اے اور کسی نے پی ایح ڈی کی ہوئی ہے۔ کرپشن میں نام پیدا کرنے والے سیاستدانوں میں ایک صاحب نے گزشتہ دور میں کرپشن کے کیسز میںسالوں قید کاٹی۔ کرپشن پکڑونے والے اداروں میں اپنے بندے نوکر کروائے ۔ انہوں نے کرپشن کا ریکارڈ ہی غائب کر دیا۔ نیب کے سربراہ نے سپریم کورٹ کی طرف سے مانگے گئے میگا کرپشن کیسز میں یہ کہتے ہوئے ان کا کیس بند کر دیا کہ فوٹو اسٹیٹ پر مقدمے نہیں چل سکتے ۔ شہری معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ صاحب آپ ریکارڈ غائب کرنے والوں کے خلاف انکوارئی کر کے جرم ثابت ہونے پر سزا کیوں نہیںدیتے ۔ ایسے تو سفارشی ملازموں کے حوصلے بڑھتے ہیں۔ اگر آپ انکواری کرتے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا۔ اب جب پان والے، دہی بڑھے والوں اور پکوڑے والوں کے نام سے جعلی اکائونٹ اور منی لانڈرنگ یعنی کرپشن میں پکڑے گئے تو شرمندگی کے اظہار کے بجائے وکڑی کا نشان بناتے ہوئے سیکورٹی وین میں بیٹھتے ہیں۔ایک دوسرے سیاست دان کواگر پاکستان کی سپریم کورٹ ٦٢۔ ٦٣ پر پورانہ اُترنے پر عمر بھر کے لیے سیاست سے نا اہل قرار دیتے ہیں توکہتے ہیں مجھے کیوں نکالا۔بجائے بے گناہی ثابت کرنے کے پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ اورفوج پر حملے کرتے ہیں۔
کہتے ہیں جمہورت خطرے میں ہے۔ ملک میں مارشل لا لکھنے والا ہے۔جبکہ نہ جمہوریت رکھی نہ ہی مارشل لا لگا۔ ملک کا جمہوری نظام پہلے کی طرح چلتا رہا ۔ہاں اللہ نے پاکستان کے غریب عوام کی سنی اور کرپٹ لوگوں کے لیے جینا دشوار کر دیا گیا۔ شہروں شہر مظاہرے کر کے پاکستان کے دشمنوں اور غداروں کے لیے کہتے ہیں کہ وہ سچ کہتے تھے۔ اگر مجیب کی بات مان لی جاتی تو پاکستان نہ ٹوٹتا۔جناب آپ ہی اپنی ادائوں پر ذرا غور کریں کہ آپ پاکستان توڑنے والوں کو آپ پاکستان کے عوام کے سینوں پر مونگ دلتے ہوئے اپنے گھر بغیر ویزے کے بلاتے ہیں۔ اپنے دوست اور پاکستان کے دشمن اسٹیل ٹائیکون کو مری میں بغیر ویزے کے بلا کر گلبھوشن کے لیے نرم گوشے کا پیغام سنتے ہیں۔ جب لوگ سوال کرتے ہیں کہ آپ کی آمدنی سے آپ کے رہن سہن آپ کے اخراجات سے لگا نہیں کھاتی توکہتے ہیں آپ کو کیا تکلیف ہے؟۔جب منی ٹرائیل نہ دینے کی وجہ سے قید کی سزا ملتی ہے تو کہتے ہیں ہم نے ایک پائی کی بھی کرپشن نہیں کی۔یا اللہ ایسی حالت میں ملک کے ووٹر کہاں جائیں جن کے خزانے پر اقتدار میں رہتے ہوئے ڈاکہ ڈالنے والے ایسی دیدہ دیلری اور میڈیا کے زرو پر عوام کو مسلسل دھوکے میں رکھیں تو ووٹر کہاں جائیں؟
عمران خان بھی کرپشن کے مسئلہ سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنی کارکردگی کو چھپانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ملک میں مہنگائی زروں پر ہے۔ بجلی گیس کے بلوں میں بے انتہا اضافے سے لوگوں کا جینا دو بھر ہو گیا ہے۔حکومت کی کارکردگی اُس بندر کی ماند لگتی ہے جو جنگل میں ایک درخت سے دوسرے درخت پر جمپ لگاتا پھرتا ہے ۔اور حاصل ضرب کچھ نہیں نکلتا۔ پھر بھی کہتا ہے کہ دیکھو میں کتنا مصروف ہوں۔ عمران خان صاحب آپ جتنے بھی مصروف ہیں عوام کو نظر آ رہے ہیں۔ مگر حاصل ضرب کچھ نہیں نکل رہا۔
آپ نے عوام کوٹیکسوں کے انبار میں تلے دبا دیا ہے۔ بجلی گیس کے بل بڑھ گئے ہیں۔ مہنگائی آسمانوں تک پہنچ رہی ہے۔ اور آپ نے پاکستان کو آئی ایم ایف کے حوالے کر دیا ہے۔ آئی ایم ایف کے ملازمین سے آپ نے بجٹ بنوایا ہے۔ اب ڈالر آپ کے کنٹرول میں نہیں رہے گا۔ آسمان سے باتیں کرے گا۔ آئی ایم ایف کے مطابق ہر تیں ماہ بعد بجلی گیس کے بلوں میں اضافہ ہوگا ۔ آپ بے بس ہو چکے ہیں۔آپ نے آئی ایم ایف سے لائے گئے ،وزیر خزانہ کے ساتھ کسی صاحب کو لگا یا تو آئی ایم ایف نے ایکشن لے کر اسے ہٹا دیا ۔ عمران خان صاحب آپ یہ بتائیں کہ پاکستان ، پاکستانی عوام کا ہے یا آئی ایم ایف کا۔ آپ جس ملایشیا کے وزیر اعظم صاحب کی مثالیں دیتے ہیں۔
ملائیشیا کے وزیر اعظم نے کہا تھا۔ جس ملک کو برباد کرنا ہے اُسے آئی ایم ایف کے حوالے کر دو۔بھائی آئی ایم ایف بین الالقوامی سوہکاروںکا ادراہ ہے۔ اس کا کام غریب ملکوں سے سود اور آپنا قرض وصول کرنے کا کام ہے۔ یہ غریب قوموں کا خون چوسنے والے ادارے ہیں۔ ان سے جتنی جلدی ہو پاکستان کی جان چھڑائو۔ آپ کے ارد گرد ڈکٹیٹر مشرف، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم کے کرپٹ لوگ ہیں۔ ان کے ہوتے ہوئے مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست کا خواب پوراہوتا ہوا نظر نہیں آتا؟ آپ نے ابھی تک کسی بھی کرپٹ سے پیسا واپس لے خزانے میں داخل نہیں کروایا۔ الٹا استاد اور ینیئر صحافی کو کرایہ نامہ پولیس اسٹیشن جمع نہ کروانے پر ہتھ کڑی لگائی جاتی ہے۔ آپ کو چاہیے کہ لوٹا پیسا واپس لے کر غریب عوام کے خانے میں داخل کرائو۔ ملک سے جتنی جلدی ہو سکے مہنگائی ختم کرائو۔ ورنہ مکافات عمل کے لیے تیار رہو۔ اللہ ہمارے ملک کو ان آفتوں سے بچائے مین۔