تحریر : زاہد محمود فیصل اور بابر دونوں نے ایک ساتھ ایک ادارے میں نوکری شروع کی دونوں کے مالی حالات بھی تقریباُ یکساں تھے دونوں ہی قابل تھے شروع کے دو سال تک تو دونوں کے حالات یکساں ہی رہے لیکن پھر آہستہ آہستہ فیصل کے طرز زندگی میں بہت تیزی کے ساتھ تبدیلی آنی شروع ہوئی فیصل کے بچے بہترین سکولوں میںپڑھنا شروع ہوگئے فیصل نے اپنی بیوی کے لئے علیحدہ سے گاڑی خرید لی اور گھر بھی ایک پوش علاقے میں لے لیا جبکہ اسکا ساتھی بابر اتنی تیزی سے اپنے طرز زندگی میں تبدیلی نہیں لا سکا بابر کی بیوی یوں تو بڑی صابر شاکر تھی لیکن فیصل کی بیوی کے ٹھاٹھ باٹھ دیکھ کر کبھی کبھی وہ بھی طعنہ زنی کر جاتی کہ دیکھو فیصل اور تم نے اکٹھے سفر کا آغاز کیا۔
جبکہ تم اس سے زندگی کے اس سفر میں بہت پیچھے رہ گئے لیکن بابر اسکی بات ان سنی کر دیتا کیونکہ وہ بہت اچھے طریقے سے جانتا تھا کہ فیصل کی ” ترقی ” کا راز کیا ہے فیصل کمپنی کے سامان کی خریداری میں کمیشن کھاتا تھا جبکہ بابر ایمانداری کے ساتھ کام کرتا تھاکیونکہ وہ جانتا تھا کہ کمیشن نہ صرف قانونی طور پر ناجائز ہے بلکہ اخلاقی طور پر بھی ناجائز ہے اور وہ اپنے بچوں کے خون میں ناجائز کمائی کا کوئی حصہ نہیں ڈالنا چاہتا تھا پھر کچھ وقت کے بعد فیصل نے بڑا ہاتھ مارنے کا سوچا اور کمپنی کے لئے خریدی جانے والی ادویات میں کمیشن زیادہ کر لیا نتیجہ یہ ہوا کہ غیر معیاری ادویات کمپنی کے سٹور میں پہنچ گئیں جسکا نتیجہ بہت سے لوگوں کی جانیں خطرے میں جانے کی صورت میں نکلا کمپنی کو بند کر دیا گیا جبکہ فیصل کو گرفتار کر لیا گیا جبکہ بابر کی ایمانداری سے متاثر ہوکر ایک اور کمپنی نے اس ملازمت دے دی۔
محلے میں ایک قتل ہوگیا قتل کرنے والے چونکہ بہت طاقتور تھے لہذا انھوں نے تفتیشی افسر کو ” انعام ” کا لالچ دیا گیا اور تفتیشی افسر نے اس کو بخوشی قبول کر لیا گیا تفتیشی افسر نے سیدھے سادھے کیس کو اتنا الجھا دیا کہ قاتل ضمانت پر رہا ہوگیا مقتول کے خاندان والے بہت شور مچاتے رہے لیکن عدالت نے ثبوتوں کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کرنا تھا اور یوں قاتل باعزت بری ہوگیا مقتول کا ایک نوجوان بھائی تھا اس نے اسکا بدلہ لینے کا سوچا اور قاتل کو تفتیشی افسر سمیت قتل کر دیا تفتیشی افسر کے 3 بچے تھے جو بے سہارا ہوگئے اور ان بچوں کی پرورش کا سارا بوجھ اسکی بیوی کے نازک کندھوں پر آگیا۔
Traffic Laws
ایک ملک کے وزیر نے قرض سکیم نکالی اسکی شرائط مناسب تھیں جس سے اس ملک کے باسی فائدہ اٹھا سکتے تھے اور ملک کو بھی فائدہ ہونا تھا لیکن وزیر موصوف کے انتخابات میں اسکے کچھ سپورٹران نے اخراجات کیے ہوئے تھے اور پھر وہ ان احسانات کے بدلہ لینے پہنچ گئے انھوں نے وزیر موصوف کو کہا کہ انکے 100 لوگوں کو قرض فراہم کیا جائے اور تمام شرائط کو منسوخ کر دیا جائے وزیر موصوف کو باامر مجبوری کرنا پڑا کیونکہ یہ اسکے ذاتی پیسے نہیں تھے بہر حال ان تمام لوگوں نے قرض لیا اور ہڑپ کر لیا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ایسی سکیم جس سے ہزاروں بے روزگار استفادہ حاصل کر سکتے تھے ملک کو قرض کے بوجھ تلے ڈبو کر ختم ہوگئی اور اسکی وجہ صرف چند لوگوں کا مفاد بنا۔
کاشف گاڑی بہت اچھی چلاتا تھا لیکن وہ غیر ذمہ دار تھا اور ٹریفک کے قوانین سے لا علم تھا اس نے ڈرائیونگ لائسنس بنوانے کا ارادہ کیا تو اسکی ملاقات ایک ایجنٹ سے ہوئی اس نے اپنا حوالہ دیتے ہوئے یہ بتایا کہ یار چھوڑو میں تمہیں ڈرائیونگ لائسنس بنوا دیتا ہوں پریشان کیوںہوتے ہو سرکاری فیس کے علاوہ 3000 روپے دے دینا تمہارا گھر بیٹھے کام ہو جائے گا کاشف یہ سن کر بہت خوش ہوا اور اس نے اسے 3000 روپے بطور انعام دے دیے اور اپنا لائسنس وصول کر لیا کچھ ہی وقت کے بعدکاشف گاڑی چلاتے ہوئے اپنا موبائل نکال کر کال سن رہا تھا اور اتنا مشغول ہوگیا کہ اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ آگے خطرناک موڑ کا بورڈ بھی لگا ہے اور نتیجہ گاڑی کے الٹنے کے باعث 15 لوگوں کی زندگی جانے کی صورت میں نکلا اور 15 لوگوں کی زندگی کی قیمت 3000 روپے لگی جو کہ اس نے اپنالائسنس بنواتے ہوئے رشوت کی صورت میں ادا کی تھی۔
عرفان بہت قابل آدمی تھا وہ اپنے علاقے کے لئے کچھ کرنا چاہتا تھا اس لئے اس نے اپنے علاقے کی بہتری کے لئے آواز اٹھانا شروع کی اور اپنے علاقے کو لوگوں کو بتایا کہ آپ کے کونسے حقوق ہیں اور کونسے فرائض ہیں اس نے لوگوں کو بتایا کہ اپنے فرائض پورے کریں اور اپنے حقوق کے لئے کھڑے ہوں جبکہ اسکے مخالفین اسکے مقابلے میں قابلیت میں کہیں کم تھے وہ لوگوں کو تقسیم کر کے ان پر حکومت کرنا چاہتے تھے۔
Election
عرفان نے کافی غورو خوض کے بعد اپنے مخالفین کے مقابلے میں الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا لیکن اسکے رستے میں ایک بہت بڑی رکاوٹ حائل تھی اور وہ تھی وسائل کی کمی کیونکہ اس نے اپنے مخالفین کی طرح ناجائز ذرائع سے بہت ساری دولت اکٹھی نہیں کی ہوئی تھی جبکہ اسکے مخالفین لوگوں کی خوشی اور غم میں شرک ہوتے اور اپنی ناجائز کمائی سے انکی کچھ تھوڑی سی مدد کر دیتے جس سے وہ مزید مضبوط ہو جاتے جبکہ عرفان محنت کرنے کے باوجود بھی الیکشن بری طرح ہار گیا وہ بچے اور نوجوان جو عرفان کو ایک ہیرو کے طور پر دیکھتے تھے وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ زندگی میں کامیابی کے لئے بہت ساری دولت ناجائز طریقے سے اگر اکٹھی کر لی جائے تو آپ کامیا ب ہو جاتے ہیں۔
لہٰذا ان نوجوانوں نے تعلیم کی طرف رجحان کم کر دیا اور پیسہ کمانے میں مگن ہوگئے جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک مزید نسل جس نے اپنے آنے والی نسلوں کی تربیت کرنی تھی غیر تربیت یافتہ بن کر معاشرے میں آگئی اور معاشرہ مزید پستیوں میں گرتا چلا گیا ۔ اب ایک سبزی والے سے لے کر ایک انجیئیر تک سب نے دولت کے حصول کو اپنی ترجیح بنا لیا جس سے ایمانداری کم ہوتی چلی گئی جرائم بڑھ گئے اور دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہو کر رہ گئی جسکا نتیجہ معاشی بدحالی اور معاشرتی بے حالی کی صورت میں نکلا جبکہ جن معاشروں میں کرپشن کی لعنت نہیں وہاں کے باسی بہت زیادہ خوشحال ہیں۔
کرپشن سب سے زیادہ معاشرے کو خراب کرتی ہے آپ اچھے اور برے کی تمیز میں فرق کھو بیٹھتے ہیں جبکہ آپکے بچوں کی ترجیحات بھی بدل جاتی ہیں جس سے معاشرتی بے چینی اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم جنم لیتی ہے جو بعد میں یا تو جرائم کا باعث بنتی ہے یا پھر خونی انقلاب کا! اب فیصلہ ہمارا ہے کہ کیا ہم کرپشن کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں یا پھر جیسا ہے ویسا چلنے دیتے ہیں۔ اس تحریر میں موجود تمام نام فرضی ہیں اور انکی کسی نام کے ساتھ مماثلت محض اتفاق ہوگی۔