تحریر : چودھری عبدالقیوم حالات معمول کے مطابق چلتے رہے تو موجودہ سال جولائی میں عام انتخابات متوقع ہیں جس کے لیے برسراقتدار سیاستدانوں نے پنے اپنے حلقوں میں تیزی سے ترقیاتی منصوبے شروع کردئیے ہیں ان کی کوشش ہے کہ جاری منصوبے تین چار مہینوں کے اندر جلدازجلد مکمل ہوں تاکہ وہ الیکشن میں ان ترقیاتی کاموں کی بنیاد پر اپنے حلقہ کے ووٹرزسے ووٹ حاصل کر سکیں۔دوسری طرف جوں جوں متوقع عام انتخابات قریب آرہے ہیں عدلیہ اور نیب کیطرف سے حکمرانوں کیخلاف کرپشن کیسز کی سماعت میں بھی تیزی آرہی ہے اس صورتحال سے مبینہ کرپشن میں ملوث سیاستدانوں کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں۔ان کیسز میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور ان کی فیملی،سابق وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار جو میاں نوازشریف کے سمدھی بھی ہیںپیپلز پارٹی کے صوبائی وزیر شرجیل میمن سمیت بلوچستان اور سرحد میں بھی بااثر سیاستدانوں کی خلاف کرپشن کے کیسز قابل ذکر ہیں۔
کرپشن کا خاتمہ اور کرپشن کرنے والوں کیخلاف کاروائی کیساتھ ترقیاتی کام بھی ملک کی ترقی کے لیے ضروری ہے۔لیکن یہ سب کچھ معمول کے مطابق ہونا چاہیے۔ کرپشن کیخلاف کیسز اور احتساب کا عمل بلاتفریق اور کسی خاص وقت کی بجائے مسلسل ہونا چاہیے تاکہ اس سے انتقام کا شائبہ تک نہ ہو اسی طرح ترقیاتی منصوبے بھی الیکشن کے دنوں میں ہی انتخابی مہم کے طور پر ہی شروع نہیں کرنے چاہیے ۔بلکہ سارا سال اور بلاتفریق اپوزیشن ارکان اسمبلی کے حلقوں میں بھی ترقیاتی کام ہونے چاہییں۔رہی احتساب یا کرپشن کیخلاف عدلیہ اور نیب کی کاروائیاں تو اس طرح کا اور اس سطح کا اسقدر تیزرفتاری کیساتھ کام ملک میں پہلی دفعہ ہو رہا ہے ورنہ اس سے پہلے کرپشن کے الزامات کے تحت کاروائیاں پٹواری اورتھانیدار کی سطح تک ہی ہوتی رہی ہیں۔ملک کی تاریخ میں پہلی دفعہ کسی وزیراعظم،وزیر اور بااثر عناصر کیخلاف کرپشن کے الزام میں بڑی کاروائیاں ہو رہی ہیں۔
ملک سے کرپشن کا خاتمہ عوام کے دل کی آواز ہے کرپشن کرنے والوں کیخلاف کاروائیوں سے قومی دولت کے لوٹے گئے اربوں کھربوں روپے قومی خزانے میں واپس آجاتے ہیں اور کرپٹ لوگوں کو سزائیں ملتی ہیںتو یہ عدلیہ اور نیب کا پاکستان کی تاریخ کا بہت بڑا کارنامہ ہی نہیں بلکہ اس قوم پر بہت بڑا احسان ہوگا۔کیونکہ ملک کی ستر سالہ تاریخ میں بار بار حکمران بننے والوں نے قومی وسائل لوٹ کھسوٹ کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کیا لیکن ان کیخلاف کسی ادارے یا عدلیہ کو کاروائی کرنے کی جرات نہیں ہوئی۔ماضی میں نیب یا کرپشن کی روک تھام کرنے والے ادارے نہ صرف کرپشن میں ملوث نظر آتے تھے بلکہ یہ ادارے اپنے فرائض کی ادائیگی کی بجائے لوٹ کھسوٹ کرنے والے طاقتور لوگوں کی کرپشن کا تحفظ کرنے میں مصروف رہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک سے کرپشن ختم ہونے کی بجائے پاکستان دنیا کے کرپٹ ترین ممالک میں شمار ہونے لگا۔اس کے برعکس اب صورتحال تبدیل ہوتی نظر آرہی ہے۔گذشتہ دنوں یہ خوش کن خبر بھی سننے کو ملی کہ پاکستان میں کرپشن پانچ درجے نیچے آ گئی ہے۔
مطلب یہ ہے کہ وطن عزیز میں کرپشن کیخلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں ۔خاص طور پرجب سے پانامہ کیس میں عدلیہ نے میاں نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے نااہل کرکے کرپشن کیخلاف ایک مہم شروع کی ہے اس وقت سے ملک کے بیس کروڑ عوام کو عدلیہ سے امید کی ایک کرن نظر آرہی ہے کہ اب پاکستان کرپشن فری ملک بننے کی طرف چل نکلا ہے۔گذشتہ روز نیب نے ؛ آشیانہ اقبال ؛ سکیم میں اربوں روپے کی کرپشن کے الزام میں انتہائی طاقتور بیوروکریٹ احدچیمہ کو گرفتار کیا ہے اس سے کرپشن کیخلاف مہم کو مزید تقویت ملی ہے کہا جاتا ہے کہ اگر یہ سللسہ چل نکلا تو اس میں کئی اہم سیاسی شخصیات،وفاقی وزرا تک بھی گرفت میں آسکتے ہیں۔
اس طرح ایسے واقعات پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار رونما ہورہے ہیں کہ ایک برسراقتدار جماعت کے وزیر اعظم کو نہ صرف اپنے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑے بلکہ وہ اور اسکے اہل خانہ سمیت قریبی ساتھیوں کو روزانہ کی بنیاد پر نیب اور عدالتو ں میں پیشیاں بھگتنا پڑرہی ہیں اگر اس دوران چند سیاسی طاقتور لوگون کو کرپشن کے کیسز میں سزا ہو جاتی ہے تویہ ایک سیاسی جماعت یا کچھ سیاسی شخصیات کے لیے تو نقصان دہ ہوسکتا ہے ہے لیکن مجموعی طور پر اس سے ملک کے مستقبل پر مثبت اثرات مرتب ہونگے جس کے نتیجے میں آئندہ کرپشن کی روک تھام میں مدد مل سکتی ہے اور احتساب کی یہ روایت جاری رہے تو پاکستان سے کرپشن کا خاتمہ بھی ممکن ہے۔