تحریر : طارق حسین بٹ شان کرپشن سے لتھرے ہوئے ملک میں جے آئی ٹی کے ممبران کے بارے میں کیا کوئی شخص حلف اٹھا کر یہ کہہ سکتا ہے کہ جے آئی ٹی کے سارے ممبران صادق اورامین ہیں اور ان کے دامن پر کرپشن کا کوئی داغ دھبہ نہیں ہے۔اگر ان سارے ممبرن کے ذرائع آمدنی پر کوئی جے آئی ٹی بنائی جائے تو دنیا ششدر رہ جائیگی کہ ان ممبران کے ذرائع آمدنی ان کے رہن سہن اور طرزِ زیست سے قطعا تال میل نہیں رکھتے۔ماضی میں بیوو کریسی کے چند اعلی افسران کے بارے میں جب بھی تفتیش کی گئی تو ان کے گھروں سے سونے کے قیمتی زیورات ، ہیرے جواہرات اور کروڑوں روپے کے نوٹ آمد ہوئے اور انھیں وقتی طور پر جیل کی ہوا بھی کھانی پڑی لیکن بعد میں معاملے پر مٹی ڈال کر انھیں اہم ذمہ داری تفویض کر دی جاتی ہے کیونکہ وہ حکمرانوں کے منظورِ نظر تھے ۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے کہا تھا کہ مجھے پہلا پتھر وہ مارے جس نے خود گناہ نہ کیا ہو لیکن پاکستان میں گنہگار پتھر مارتے ہیں۔کیا یہ وقت بھی آنا تھا کہ پاکستان میں گریڈ ٢٠ یا٢١ کے کسی سرکاری ملازم نے اس بات کا فیصلہ کرنا تھا کہ پاکستان کے وزیرِ اعظم پر قانون کی کون سی شق کا اطلاق کر کے انھیں وزارتِ عظمی سے رخصت کرنا ہے۔
ایک اندھیر نگری ہے لیکن اسٹیبلشمنٹ کے خوف سے لوگوں کی زبانیں گنگ ہیں کیونکہ پاکستان میں کسی میں بھی اسٹیبلشمنٹ کے سامنے کھڑا ہونے کی ہمت نہیں ہے کیونکہ جس کسی نے بھی کھڑا ہونے کی کوشش کی اسے حیلے بہانوں سے فارغ کر دیا گیا یا جیل اس کا مقدر بنی ۔کیا قوم کو میاں محمد نواز شریف کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کا غم و غصہ نظر نہیں آرہا ؟عدالتیں اسٹیبلشمنٹ کی مرضی اور سرپرستی کے بغیر نہ تو کوئی بڑا فیصلہ کرتی ہیں اور نہ ہی تنِ تنہا کسی کو کٹھ پتلی کی طرح نچا سکتی ہیں ۔احتساب کے نام پر اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے باہمی گٹھ جوڑ کی کہانی بہت پرانی ہے لہذ اجب کبھی اسٹیبلشمنٹ اپنا زور آزمانا چاہتی ہے تو وہ عدلیہ کے کندھوں کو استعمال کرتی ہے۔یہی جنرل محمد ایوب خان نے کیا تھا،یہی جنرل ضیاا لحق نے کیا تھا،یہی جنرل پرویز مشرف نے کیا تھا اور یہی اب بھی ہونے جا رہا ہے ۔پی پی پی اور اسٹیبلشمنٹ کی مخاصمت میں افتخار محمد چوہدری نے پی پی پی کو جس طرح تگنی کا ناچ نچایا تھا وہ کسی سے مخفی نہیں ہے ،عدالت وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے احکامات کواہمیت دینے کی بجائے انھیں ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتی تھی ۔کسی کی ٹرانسفر ہو، یا کسی کی پرو موشن ہو یا کسی کی ترقی ہو سپریم کورٹ سوموٹو ایکشن سے سارا کھیل ہی بگاڑ دیتی تھی اور وزیرِ اعظم پاکستان منہ دیکھتا رہ جا تا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے لیکن وہ کر کچھ نہیں سکتا تھا کیونکہ آئینِ پاکستان کی رو سے ہر شخص عدلیہ کے ہر فیصلے کو تسلیم کرنے کا پابندہے اور اس کا اطلاق وزیرِ اعظم پر بھی ہوتا تھا اور اس میں پسندو ناپسند کا سوال نہیں ہوتا ۔،۔
اس وقت میاں محمد نواز شریف اور ان کی فیملی کے خلاف کرپشن کا ڈھول پیٹا جا رہا ہے اور یہ ثا بت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ اس ملک کے واحدسیاستدان ہیں جو کہ کرپشن اور لوٹ مار کے ملزم ہیں اور ان کے خلاف انکوائری کا سلسلہ اس وقت سے شروع کیا جا رہا ہے جب میاں محمد نواز شریف خود بالکل نوجوان تھے او ر ان کے والد کاروبار ی معاملات دیکھا کرتے تھے۔اب میاں محمد شریف اس دنیا میں نہیں رہے تو اصو لا ان سے متعلقہ معاملات پر کوئی قانونی کاروائی نہیں ہو سکتی کیونکہ کسی بھی انسان کی موت کے ساتھ ہی اس کے خلاف سارے مقدمات خود بخود خارج ہو جاتے ہیں لیکن پاکستان میں ایک نئی روائت جنم لے رہی ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ سارے معاملات جو میاں محمد شریف سے متعلقہ تھے اس کا ذمہ دار ان کے بیٹوں کو بنا کر ان سے تفتیش کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ کیا کسی معاشرے میں ایسا ہو تا ہے کہ کسی مرنے والے کے بعد اس کے کاروبار کے بارے میں تفیتیش کا آغاز کیا گیا ہو؟ہر انسان اپنے اعمال کا خود جواب دہ ہوتا ہے اور اپنے کاروبار اور مالی امور کے بارے میں عدالت اور دوسرے قانونی اداروں کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے لیکن جب وہ اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے تو اس کے پسماندگان اس کے اعمال کے کبھی جوبدہ نہیں ہوتے۔ایسے محسو س ہو رہا ہے کہ پاکستان فرشتوں کی آماجگاہ ہے اور اس میں صرف میاں برادران ہی گنہگار ہیں لہذا قانون کا اطلاق صرف انھیں پر ہونا فرض قرار پا رہا ہے ۔پورا ملک صادق و امین ہے۔
دیانت داری سکہ رائج الوقت ہے، رشوت کا دور دور تک کہیں نام و نشان نہیں ہے،ہر پاکستانی ملکی خزا نے کا محافظ ہے،وعدہ ایفائی معاشرے کا دین و دھرم ہے ،ہر انسان دیانت داری کا پیکر ہے ،دھوکہ دہی اسے چھو کر نہیں گزری لہذا پاکستانی معاشرے سے اگر میاں برادران کو خارج کر دیا جائے تو پھر ہر طرف دودھ کی نہریں بہنے لگیں گیں جس سے معاشرہ صالحیت کی آماجگاہ بن جائیگا۔کیا واقعی ایسا ہے کہ میاں برادران کی بے دخلی سے سب کچھ بدل جائیگا؟ایک جے آئی ٹی تشکیل دی جا چکی ہے جو اپنی حدود سے تجاوز کرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے لہذا فریقین کے درمیان تنازعات شروع ہو چکے ہیں ۔حکومت جے ٹی آئی پر جانبداری کا الزام لگا رہی ہے جبکہ جے آئی ٹی حکومت کو مورردِ الزام ٹھہرا رہی ہے۔الزام در الزام کے اس سلسلہ کی کسی کو کوئی سمجھ نہیں آ رہی کہ اس کا انجام کیا ہو گا؟اگر الزامات کا یہ سلسہ مزید دراز ہو گیا تو اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ جے ٹی آئی بالکل متنازع ہو جائیگی اور میاں محمد نواز شریف اور اس کی لیگل ٹیم جے آئی ٹی کی تفتیش سے لا تعلقی کا اظہار کر دے گی ۔جے آئی ٹی میں ان افراد کو بھی سنا جا جا رہا ہے جو میاں برادران کے کٹر مخالف ہیں جس سے جے آئی ٹی کی کریڈیبیلیٹی متاثر ہو رہی ہے اور اس پر ہر طرف سے انگلیاں اٹھنے لگی ہیں۔ کیا اس وقت ا سٹیبلشمنٹ میاں محمد نواز شریف کی رخصتی کا خطرہ مول لے گی؟ فرض کریں کے سپریم کورٹ اسٹیبلشمنٹ کے دبائو پر میاں محمد نواز شریف کی رخصتی کا فیصلہ کرتی ہے تو کیا اس سے وہ مطلوبہ نتائج حاصل کر پائیگی جس کیلئے یہ سارا کھیل کھیلا جا رہا ہے؟کیا میاں محمد نواز شریف کو اقتدار سے بے دخل کرکے ملک میں استحکام کا ماحو ل پیدا کیا جا سکتا ہے؟ کیا میاں محمد نواز شریف کی حکومت کی رخصتی سے انارکی کو ہوا نہیں ملے گی؟ کیا میاں محمد نواز شریف کی بے دخلی خانہ جنگی کی صورت اختیار نہیں کرے گی؟پنجاب کے وزیرِ اعظم کو رخصت کرنا کیا اتنا آسان ہے؟بہت سے حلقے ابھی تک حالات کا صحیح ادراک کرنے سے قاصر ہیں۔وہ بھول رہے ہیں کہ میاں محمد نواز شریف اس ملک کے مقبول تر ین لیڈر ہیں لہذا انھیں اس طرح کے ہتھکنڈوں سے ملکی سیاست سے بے دخل نہیں کیا جا سکتا۔،۔
اس وقت پی ٹی آئی میاں محمد نواز شریف کے خلاف خم ٹھونک کر میدان میں نکلی ہوئی ہے اور اس کا ایسا کرنا اس کا سیاسی حق ہے ۔ پی ٹی آئی اپنے سیاسی حریف کے خلاف سیاسی پینترے باندھ رہی ہے ،اس پر کرپشن کے الزامات لگارہی ہے ،اس کی گوررنس کو موضوعِ بحث بنارہی ہے ،حکومت کے خلاف لوٹ مار کی کہانیاں تراش رہی ہے ،حکومت کی رخصتی کی افواہوں کو تقویت دے رہی ہے ، جماعت میں گروہ بندیوں کا ڈھنڈورہ پیٹ رہی ہے،ملکی خزانے سے کھلواڑ کا شور مچارہی ہے ،منی لانڈرنگ کا ہوا کھڑا کررہی ہے اور مسلم لیگ (ن) کی پالیسیوں سے عوام کے ذہنوں کو پراگندہ کرکے حکومت کی ساکھ مجروح کر رہی ہے تا کہ عوام اس سے دوری اختیار کر لیں۔یہ اس کا آئینی حق ہے اور وہ اپنے اس حق کو انتہائی دانشمندزنہ انداز میں استعمال کر رہی ہے۔عمران خان نے ایک منجھے ہوئے سیاستدان کی طرح مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو دفاعی انداز اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔سیاست جب تک سیاست کی حدودو قیود میں رہتی ہے کوئی معترض نہیں ہوتا لیکن جب ا سٹیبلشمنٹ کسی سیاسی جماعت کی پشت پر کھڑی ہو جاتی ہے تو پھر عوام میں تشویش کی لہر دوڑ جاتی ہے۔عوام اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کو کسی بھی صورت میں برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں وہ جمہوری انداز سے حکومت کو تبدیل کرنے کے عمل کا تسلسل چاہتے ہیں لہذا اسٹیبلشمنٹ کو بھی حکومتی معاملات میں اپنی مداخلت کی پرانی روش سے اجتناب کر کے عوامی نقطہ نظر کے سامنے خود کو سر نگوں کرنا ہو گا کیونکہ اسی میں پاکستان کی ترقی،بقا اور استحکام کا راز پنہاں ہے۔،۔
Tariq Hussain Butt Shan
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال