کرپشن اور قانونی معاملات

Corruption

Corruption

تحریر : محمد کاشف رانا
پاکستان میں کرپشن کا ناسور دیمک کی طرح ہے جو آہستہ آہستہ ملک کی جڑوں کو کھوکھلاکیے جا رہا ہے ہر سال ہزاروں اربوں رووپے کی کرپشن نے پورے نظام کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اقتدار پر قابض مافیا اس کو تحفظ دینے کے لیے متحد ہے جب تک ملک میں استحصالی نظام موجود ہے ملک میں ترقی و خوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا ۔ پاکستان میں اینٹی کرپشن کے کئی ادارے وجود میں آئے مگر تاریخ ااس بات کی گواہ ہے کہ اینٹی کرپشن کے ہر ادارے نے خود سب سے زیادہ کرپشن کی بھی اور کرپشن کو فروغ بھی دیا ان اداروں نے کہیں قانون سے چھپ کر ڈیل کی کہیں قانون کے تحت ڈیل کر کے کرپٹ مافیا کی حوصلہ افزائی کی یہی وجہ ہے کہ کرپشن کے خلاف قدم قدم پر قانونی مشکلات نظر آتی ہیں ۔چونکہ کرپشن معاشرے میں ایک لازمی جزو ہے

اسی لیے ہندوستان پر قبضہ کرنے کے بعد انگریزوں نے 1860ء میں تعزیرات ہند (موجودہ تعزیرات پاکستان )مرتب کر کے قانون نافذ کیا تو تو اینٹی کرپشن قوانین بھی شامل کیے جن کا تعلق سرکاری ملازمین سے ہے ،جنہیں پبلک سرونٹس کہا جاتا ہے ۔ان پبلک سرونٹس کی کرپشن کو روکنے کے لیے معاشرے میںگراس روٹ لیول پر مقامی مجسٹریٹوں کو کرپشن کے خلاف مقدمات کی سماعت کا مکمل اختیار حاصل تھا اس لیے پولیس یادوسری ایجنسی کی خدمات حاصل کیے بغیر کرپشن سے مجروح کوئی بھی شخص اس مقامی عدالت میں استغاثہ دائر کر سکتا تھا جس پر عدالت اس کرپٹ ملازم کو ضابطہ فوجداری کے تحت دو ماہ کے اندر اندر جواب دینے کے لیے نوٹس جاری کرتی۔

جس کا علم ہونے پر محکمے کاسربراہ خود انکوئری کرکے اسے ملازمت سے فارغ کردیتااور اگروہ کر پٹ نہ ہوتا تو عدالت میں آکر صفائی پیش کرکے بری ہو جاتاہے، اور جھوٹا استغاثہ دائر کرنے والے کو سزاملتی۔ اسی طرح انگریزوں نے معاشرے میںبنیادی سطح پر عوام کو کرپشن کے خلاف کھڑاکرکے ایک ایسی انتظامیہ کو پروان چڑھایا، جس کی سو سالہ تاریخ میں کرپشن کاکوئی ایک کیس بھی نظر نہیںآتا۔مگراب ایسا نہیں کیونکہ 1947ء میں اس قانون میں تر میم کر کے مقامی عدالتوں سے کرپشن کے خلاف مقدمات کی سماعت کے اختیارات واپس لے لیے گئے، اور ڈویژنل سطح پر اینٹی کرپشن ہیڈکوارٹر ،اینٹی کرپشن تھانہ،اینٹی کرپشن پولیس اور اینٹی کرپشن کورٹ قائم کی گئی جو کرپشن کے قانونی معاملات کو ڈیل کرنے لگی۔

Law

Law

اسی طرح مقامی سطح پر تمام اہلکار اور افسر کرپشن کے معاملات میں آزاد ہو گئے جن میں پولیس کے سپاہی ، تھانیداراور محکمہ مال کے پٹواری اور تحصیلدارسر فہرست ہیں جو کرپشن کو زیادہ سے زیادہ پروان چڑھارہے ہیں۔ چونکہ ان مقامی اہلکاروں اور افسروں کے خلاف کرپشن کے معاملے میں اینٹی کرپشن ڈائریکٹر کو درخواست دینا پڑتی ہے جو اینٹی کرپشن پولیس کی تفتیش پر اینٹی کرپشن تھانے میں ایف آئی آر درج کرنے کا حکم صادر کرتا ہے اس لیے ہر ایسی درخواست اینٹی کرپشن پولیس کے لیے بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹنے والی بات ہے کیونکہ رشوت خور ملزم پولیس کو بھاری رشوت دے کر آزاد ہو جاتا ہے۔

رہا سوال اینٹی کرپشن کورٹ میں استغاثے کا کسی کو کیا پڑی ہے کہ وہ پٹواری کی دس ، پندرہ روپے رشوت پر سو دوسو کلومیٹر دور ڈویژنل ہیڈکواٹر جاکر اینٹی کرپشن کورٹ میں استغاثہ دائر کر کے وکیل کی فیس ، گواہوں اور آمدو رفت کے اخراجات برداشت کرے ۔یہی وجہ ہے کہ لوگ ان تمام قانونی معاملات میں الجھنے کی بجائے کرپشن کے خلاف آواز ہی بلند نہیں کرتے جس وجہ سے ملک پاکستان میں کرپشن دن بدن پروان چڑھ رہی ہے۔

کرپشن کی وجہ سے جب 1958ء میں مارشل لاء نافذ ہوا تو صدر ایوب خان نے بنیادی جمہوریت کو اس کا علاج قرار دیا جس پر فاطمہ جناح نے یہ کہہ کر صدارتی انتخاب میں حصہ لیا کہ قوم کو بنیادی جمہوریت کی جگہ بنیادی انصاف چاہیے لیکن ہماری قسمت کہاں اتنی تیز جو اس ملک میں بنیادی انصاف مل سکے ، جس ملک اور معاشرے میں لوگوں کو بنیادی سطح پر انصاف نہیں ملتا وہاں جمہوریت بھی کرپٹ افراد کو اقتدار میں لا کر کرپشن کو فروغ دیتی ہے جس کی سب سے بڑی مثال آج ہمارا ملکِ پاکستان ہے۔

Muhammad Kashif Rana

Muhammad Kashif Rana

تحریر : محمد کاشف رانا