ہم روبہ زوال کب سے ہیں ،یہ تونہیں معلوم البتہ اتنا معلوم ہے کہ جب سے ہوش سنبھالا ہے، یہی سنتا چلا آیا ہوں کہ ہمارے زوال کا سب سے بڑا سبب بدعنوانی یعنی کرپشن ہے۔ چوری، خیانت، دھوکہ ،حق تلفی ، اختیارات کا ناجائز استعمال ، اقرباپروری ، میرٹ کی پامالی اورنہ جانے کیا کیا گھناونے جرائم ہیں،جوکرپشن کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔ یہی کرپشن ہمارے ہاں ہرجگہ ، ہر محکمے اور ہرادارے میں کسی نہ کسی شکل میں موجودہوتاہے،جوروزبروزبڑھتاچلاجاتاہے اورکم ہونے کانام نہیں لیتا۔یہاں تک کہ کرپشن کی اصطلاح ہماری زبان اورہمارے عقیدہ کاحصہ بن گئی ہے۔ ہرچھوٹابڑایہ بات جانتاہے کہ پاکستان میں کرپشن کے بغیرکوئی کام نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ اگرآپ کسی سرکاری ملازمت کے لئے ٹسٹ اورانٹرویومیں کامیاب ہوجاتے ہیں ، تب بھی کرپشن کے مرحلے سے گزرنے کے بعدہی آپ کوحق ملتاہے۔اسی کرپشن کی ایک صورت رشوت ستانی بھی ہے،جس کے مطابق کوئی بھی غیرقانونی چیزحاصل کرنے کے لئے افرادکو پیسہ استعمال کرناپڑتاہے اورکبھی کبھی یوں بھی ہوتاہے کہ کسی کواپناحق بغیررشوت کے نہیں مل جاتا۔ رشوت کے متعلق نبی کریم ۖ کی واضح اورقطعی حدیث ہے کہ رشوت دینے والااورلینے والادونوں جہنمی ہیں۔
پھرہم کس قدراحمق ہیں کہ اس قدرسخت وعیدکے باوجودہم اللہ اوررسولۖ کے ساتھ لڑائی مول لیتے ہیں۔ کرپشن کے نقصانات بے شمارہیں۔سب سے بڑانقصان یہ ہے کہ اسکی وجہ سے ہماری قوم اورہماراملک روبہ زوال ہے۔ترقی کے سفرمیں ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ ملک میں عدم استحکام کرپشن کی وجہ سے پیداہوتاہے۔ ایک خاص طبقہ دولت اورملکی وسائل پرقابض ہے جبکہ دوسراطبقہ روز بروز غریب اورمفلس ہوتاجارہاہے۔ خاص لوگ مالامال ہورہے ہیں جبکہ عوام ذلت اورپستی کی جانب جارہے ہیں۔ بنیادی ضروریات ،جس کے اوپرممالک کی ترقی کادارومدارہے، جوکہ تعلیم ،صحت، مناسب غذااورصاف پانی ہے، ناپیدہورہے ہیں۔ عالمی پیمانہ ترقی جسے ہیومین دیولپمنٹ انڈکس HDIکہتے ہے، انہیں سہولیات کے اوپرفیصلہ کرتی ہے کہ کونسی قومیں ترقی کے سفرمیں آگے جارہی ہیں اورکونسی روبہ زوال ہیں۔ وطن عزیزمیں یہ تمام بنیادی ضروریات عام آدمی کے دسترس سے باہرہوتے جارہے ہیں۔ تعلیم کے حصول میں مشکلات پیداہورہے ہیں۔
سرکاری تعلیم اداروں میں فیسوں کی شرح میں روزافزوں اضافہ ہورہاہے،جس سے کسی غریب کابچہ کبھی اس قابل نہیں ہوسکتاکہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکے۔ اسی طرح عوام سے صحت کی سہولتیں بھی چھینی جارہی ہیں۔اسکی مثال گذشتہ سال کے دوران ادوایات کی قیمتوں میں ہوش ربااضافہ ہے ،جوکہ تقریباً ایک سوسے لیکردوسوفیصد تک ہے۔ ایک طرف ذریعہ آمدن نہ ہونے کے برابر ، دوسری طرف مہنگائی کاطوفان ۔ایسے حالات میںایک عام آدمی کے لئے جینامشکل ہوگیاہے۔ وزیراعظم عمران خان نے حکومت کی باگ ڈورسنبھالنے سے پہلے عوام سے بہت وعدے کئے تھے کہ جب وہ حکومت میں آئیں گے، تو وہ ملک سے بدعنوانی کاخاتمہ کرکے، وطن عزیزکی معیشیت کو بہترکریں گے۔ تقریباً دوسال کے اس عرصے میں بہتری کے معمولی اثاردکھائی دئے ہیں لیکن عوام نے وزیراعظم صاحب سے جوتوقعات وابستہ کی تھیں، انکی تکمیل تاحال باقی ہے۔
غیرقانونی طریقے ملک سے باہر رقم کی منتقلی تقریباً بندہوگئی ہے۔ ٹیکسوں کانظام مضبوط کیاگیاہے اوراسکے حصول کے لئے کافی اقدامات کئے گئے ہیں۔ چوراورڈاکوں کااحتساب شروع ہواہے اورشائد اس ضمن میں بہت سے بدعنوانی کے مرتکب لوگوں سے ریکوری بھی ہوگئی ہوگی۔وزیراعظم صاحب کاایک اوروعدہ تھاکہ سرکاری اخراجات میں کمی کرکے، ملکی ضروریات کو پوراکیاجاسکتاہے۔ اگرواقعی ایساہواہے، توشاید اس سے بھی قومی خزانے کو پورافائدہ حاصل ہواہوگا۔ ملک کے بہتری کے لئے اورموجودہ حالات کامقابلہ کرنے کے لئے عوام نے تقریباً دوسال قربانی دی ، لیکن اب شاید عوام مزید مہنگائی کے اس طوفان سے لڑنے کی سکت نہیں رکھتے اورانہیں اس وقت کاانتظارہے کہ وزیراعظم سے جلد ازجلد قوم کوخوشخبری سنائے کہ انکی زندگی بدل رہی ہے۔
تیل، بجلی، گیس، اشیائے خورونوش، تعلیم اورادویات کی قیمتوں میں کمی کااعلان کرکے، یہ ثابت کرے کہ واقعی ملک سے کسی حد تک کرپشن یابدعنوانی کاخاتمہ ہوگیاہے،جس کی بدولت ملکی معیشیت میں بہتری آئی ہے۔ عوام کی نظریں حکومت پر ہیں کہ مزید عوام اس ملک میں یہ برداشت نہیں کرسکیں گے کہ ایک طرف بورجواطبقہ جنہوں نے ملکی وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا اوردوسری طرف عوام پرولتاریہ بن کر، بھوک، افلاس، جہالت اوربیماریوں میں زندگی گزاررہے ہیں۔ لہذا اب وقت ہے کہ حکومت اپنی کارکردگی کے بل بوتے پر عوام کے لئے جلد ازجلد کسی ریلیف پیکج کااعلان کرے تاکہ تبدیلی کے اثرات عام لوگوں تک بھی پہنچ سکے۔