تحریر : جنید رضا، کراچی ایک رات میں لاہور کینٹ سے گزر رہا تھا سگنل پہ باوردی فوجی کھڑا تھا رات آٹھ کا ٹائم تھا۔وہ ایک تھکی ہوئی پبلک وین تھی جس کی بیٹری کا ٹرمینل خراب تھا۔جوان نے رکنے کا اشارہ کیا دوسری طرف سے آنے والی گاڑیوں کو گزارہ اور جس گاڑی میں میں بیٹھا اسے چوک پاس کرانے کے لیے چلنے کا اشارہ کیا۔لیکن جوں ہی ڈرائیور نے گاڑی گیئر میں ڈالی گاڑی مکمل بند ہو گئی اور ساتھ ہی ھیڈ لا ئیٹس بھی آف ہو گئیں۔ادھر جب ہماری گاڑی بند ہوئی ہم سے تقریبا بیس میٹر پیچھے اس فوجی کے کمانڈنگ آفیسر کی ملٹری جیپ نمودار ہو چکی تھی۔ ہماری گاڑی کے سامنے دس میٹر کے فاصلے پہ کھڑا وہ فوجی سمجھا کہ شائد گاڑی کسی تخریب کار کی ہے۔
وہ فوجی پوری قوت سے گرجا گاڑی آگے کرو اور اس کے ساتھ ہی بجلی کی سی تیزی سے دوڑتا ہوا ڈرائیور کے سر پہ پہنچ گیا۔ میں نے اس کی دوڑ میں عجیب سا جنون دیکھا۔ڈرائیونگ گیٹ پہ آتے ہی اس نے دروازے سے اندر ہاتھ ڈال کے گیٹ ان لاک کیااور جھٹکے سے دروازہ کھول کے ڈرائیور کو کور کر لیا۔
اتنی دیر میں اس کے کمانڈنگ آفیسر کی گاڑی ہماری وین کے قریب سے گزر رہی تھی۔پیچھے سے آتی ملٹری جیپ میں بیٹھے کمانڈنگ آفیسر نے تبھی دیکھ لیا تھا جب فوجی دوڑا تھا۔ ہماری گاڑی کے پاس سے گزرتے ہوئے آفیسر نے بلند آواز سے “جوان آرام سے” کہا اور گزر گیا۔ ڈرائیور نے شرمندہ سے انداز میںمجبوری بتائیاور تار کسنے کی اجازت مانگ کے تار کسے اور گاڑی آگے بڑھا دی۔ گاڑی تو آگے بڑھ چکی تھی مگر میں فرنٹ سیٹ پہ بیٹھا سوچ رہا تھا کہ کیا چیز فوج اور ایک فوجی کو دوسرے تماماداروں سے ممتاز بناتی ہے؟ خدانخواستہ اگر یہ گاڑی سچ مچ کسی بممبار کی ہوتیتو پھر کیا ہوتا؟ میرے خیا ت کا تسلسل تب ٹوٹا جب اگلے چوک پہ جا کر گاڑی ایک دفعہ پھر بند ہو گئی اور ڈرائیور راستہ بھول چکا تھا۔ خیر اللہ اللہ کر کے گاڑی سٹارٹ ہوئی تو اس نے گاڑی دوبارہ واپس موڑ لی۔ پیچھے کھڑا فوجی گاڑی کو واپس آتا دیکھ رہا تھامگر اس مرتبہ وہ جان چکا تھا کہ خطرہ نہیں ہے۔
خیر اس نے نزدیک آنے پر گاڑی کو سائیڈ پہ لگانے کا کہا اور ڈرائیور کو نیچے اترنے کا اشارہ کیا۔میں نے سوچا کہ اب یہ ڈرائیور کی مٹی پلید کرے گا شائد، اس لیے بیچ بچاؤ کرنے کےلیے ڈرائیور کے ساتھ ہی میں بھی اتر گیا۔ لیکن اس لمحے میری حیرت کی انتہا نہ رہیجب اس فوجی نے آگے بڑھ کر ڈرائیور سے معذرت کی اور بولا یار آج جنرل راحیل شریف آ رہے ہیں ادھر سٹیڈئم میں کھیلوں کے مقابلوں کی آج اختتامی تقریب ہے، سکیورٹی ھائی الرٹ لیول پہ ہے۔ تمہاری گاڑی بالکل اس وقت بند ہوئیجب پیچھے سے میرے کمانڈنگ آفیسر کی گاڑی نزدیک تھی اور میں یہیسمجھا کہ تم کوئی تخریب کاری کرنا چاہتا ہے۔ اس لیے میں بھاگتے ہوئے سخت بول گیا۔
ڈرائیور نے بھی معذرت کر کے مطلوبہ پتہ پوچھا اور چل دیا۔ میرے قدم مگر گڑ سے گئے وہیں پر۔ میں نے الوادعی مصافحہ کرتے ہوئے دانستہ ایک سوال پوچھا اس جوان سے،سر اگر یہ گاڑی اللہ نہ کرے کسی تخریب کار کی ہوتی پھر؟ وہ بڑے سکون سے گویا ہوا اگر ایسا ہوتا ہے تو میری زندگی میں وہ کبھی اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو پاتا۔میں نے دوڑتے ہوئے پہلا قدم یہی سوچ کر اٹھایا تھاکہ شائد فرض کی تکمیل کا وقت آ گیا ہے۔ مصافحے سے ہاتھ چھڑاتے ہوئے وہ جوان اپنا دایاں ہاتھ سیدھا اپنے کندھے پہ لگے پاکستان کے پرچم پر لے گیا۔اور ہاتھ اس پہ رکھ کے بولا ۔سر معاملہ ہماری زندگیوں کا نہیں ہوتا معاملہ اس پرچم کی سربلندی کا ہوتا ہے۔
ادھر سٹیڈیم میں دنیا کے مختلف ملکوں کی فوج کے کھلا ڑی ہیں۔ اللہ نہ کرے کوئی حادثہ ہو تو بدنامی اس پرچم کی ہو گی اور جب ہم وردی پہنتے ہیںہم یہ قسم کھاتے ہیں کہ کبھی بھی اپنی زندگی کی پروا اس پرچم اور اس کی سربلندی سے زیادہ نہیں کریں گے۔باقی یہاں ہر چوک پہ ایک فوجی کھڑا ہے کسی سے بھی یہ سوال کر لیں وہ بات اس جھنڈے کی ہے کرے گا۔
وہ جوان چپ ہو چکا تھا اور پتہ نہیں کب میرا ہاتھ اٹھ کے ماتھے تک جا چکا تھا۔میرے پاس ایک سلیوٹ تھا اسے پیش کرنے کےلیے وہ میں نے کر دیا اور اس سلیوٹ میں پتہ نہیں کتنا جذبہ اور محبت تھی اس نوجوان کے لیے اور اس ادارے کےلیے جو ایسے نوجوان پیدا کرتا ہے۔
چلتے ہوئے مجھے میرے سوال کا جواب بھی مل چکا تھا۔کہ ایک فوجی اور فوج کو صرف یہی بات دوسرے تمام اداروں سے ممتاز بناتی ہے کہ اس ملک اور اس کے جھنڈے کی سربلندی کےلیے جان کی پروا نہیں کرنی۔ اور جس دن بھی اس ملک کے باقی اداروں میں یہی جذبہ پیدا ہو گیا ان کی عزت بھی اسی طرح کی جائے گی۔جو اس ملک کےلیے جان دے سکتا ہے ہماری جانیں بھی اس کےلیے فدا ہیں۔اور جو اس ملک کا نقصان کرتا ہےکرپشن سے، صوبائیت لسانیت فرقہ واریت یا کسی بھی گروہ بندی سے اسے اس قوم کی محبت نہیں صرف نفرت ہی مل سکتی ہے۔