کرپشن کی کیاریاں

Corruption

Corruption

تحریر : سید زین عباس زیدی

خدا خدا کر کے پاکستان میں ایسی حکومت بھی آ ہی گئی کہ جس نے کرپشن کے خاتمے کے نعرے پہ ووٹ لیا یعنی آج سے پہلے مختلف حکومتوں اور سیاسی جماعتوں نے مختلف نعرے لگائے تھے اور عوام ایک ہی جیسے نعروں کے دہرائے جانے سے شدید بوریت کا شکار تھے اس لحاظ سے عوام بہت خوش ہیں کہ انھیں ایک نئے نعرے پہ بہلایا گیا ہے، رہا سوال کرپشن کا تو وہ حسب سابق آج بھی ترقی پزیر ہے اور ہمارے عوام روز افزوں کرپشن سے ویسے ہی مستفید ہو رہے ہیں جیسے پہلے ہوا کرتے تھے۔ در اصل آتے ساتھ ہی حکومت نے ” گھبرانا نہیں ہے ” کا نعرہ لگایا جسے کرپٹ افراد نے نیک شگون سمجھا اور باقی لوگ اگر گھبرائے بھی تو وہ کبھی نہیں گھبرائے اور اگر گھبرائے بھی تو کچھ اور معاملات پہ، ورنہ کرپشن کے معاملے میں تو یہ سنہری اصول بیان کیا گیا کہ کرپشن کے خاتمے سے ملکی معیشت خطرے میں پڑ سکتی ہے لہذا کوئی محب وطن پاکستانی ایسی سونے کی چڑیا کے خاتمے کی کوشش کیوں کرے گا جس پہ ہماری ملکی معیشت کا انحصار ہو۔

خیر میرا موضوع ہر گز کرپشن نہیں تھا میں تو یوں ہی بچوں کو پڑھاتے پڑھاتے سوچ رہا تھا کہ اچھے خاصے شریف گھروں میں پلنے والے بچے کیونکر نقل اور جھوٹ کے عادی ہو جاتے ہیں، ممکن ہے بچوں کے گھر والوں کو بھی اس میں کچھ دخل ہو لیکن اکثر کے بارے میں امید قوی یہ ہے کہ مونٹیسوری میں داخلے کے ساتھ ہی بے شمار قبیح عادات کے ساتھ کرپشن بھی بچے کے اخلاق حسنہ کا حصہ بن جاتی ہے اور میٹرک اور ایف ایس سی کے پریکٹیکلز میں جب سکول انتظامیہ ،اساتذہ اور ممتحن سب مل کر چوری کرتے ہیں تو بچہ یہ اطمینان حاصل کر لیتا ہے کہ کرپشن ہی در اصل ترقی کا زینہ ہے اور جو کچھ ہمیں کرپشن کے خلاف پڑھایا جا رہا ہے درحقیقت یہ بھی کرپشن ہی کا حصہ ہے۔اس کے علاوہ یہ بھی حقیقت ہے کہ جن سکولوں کی تعمیر کانقشہ کرپشن سے پاس ہوا ہو، رشوت دے کر سکول کی رجسٹریشن کروائی گئی ہو اور پرنسپل اساتذہ کی تنخواہوں کے معاملے میں استحصال کر رہا ہو اور اساتذہ تنخواہیں لے کر کام چوری کر رہے ہوں تو ایسی جگہ سے بچے کرپشن کے علاوہ اور کیا سیکھیں گے۔

اتفاق سے میرا آج کا موضوع اس سے بھی ہٹ کر ایک اور کرپشن آشکار کرنے سے متعلق تحا اور وہ ہے فکری کرپشن جس کا شکار ہو کر ہمارے بچوں کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ماری جاتی ہے، باقی سب مثالوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے بارہویں جماعت کی اردو کی کتاب میں شامل ایک افسانہ زیر بحث لانا چاہتا ہوں کہ جس کو نصاب میں شامل کر کے شوکت صدیقی صاحب پہ احسان تو کر دیا گیا لیکن اس افسانے کے ساتھ غیر محسوس طریقے سے وہ ظلم کیا گیا کہ ایک طرف ملک میں ہونے والی کرپشن کا پردہ بھی رہ جائے اور دوسری طرف شوکت صدیقی مرحوم کو بھی کسی کروٹ چین نصیب نہ ہو۔ بات ہو رہی ہے، شوکت صدیقی مرحوم کے افسانے سیاہ فام کی۔ معاشرے کی جرم پروری اور غریب دشمنی پہ گہری چوٹ کرتے ہوئے صدیقی صاحب نے نہایت منطقی اور غیر جذباتی انداز میں صاحبان اختیار کی قبیح بدعنوانیوں کا ایک چھوٹا سا نمونہ پیش کیا ہے۔ افسانے کی کہانی ایک رکشا ڈرائیور کے گرد گھومتی ہے جو گاڑی کی ٹکر سے زخمی ہو جاتا ہے۔

گاڑی چلانے والا بظاہر ایک ایسا فرد تھا جو پولیس میں اثر و رسوخ رکھتا تھا، حادثے کے بعد وہ زخمی عبد اللہ کو وہیں چھوڑ کر تھانے جاتا ہے اور معاملات طے کرنے کے بعد پولیس اس سیاہ فام زخمی کو ہسپتال پہنچا دیتی ہے، اگلے روز اخبار میں گاڑی کے مالک کو خبر مل جاتی ہے کہ حادثے کا شکار ہو جانے والے جوان کی صرف ٹانگ ٹوٹی ہے جس کے بعد وہ تسلی سے اپنی گاڑی کے بیمے کی رقم کے لیے کوشش شروع کر دیتا ہے۔ حادثے کا شکار نوجوان خانہ نشین ہو جاتا ہے اس کی بیوی پاس پڑوس سے ملنے والا کھانا لاتی رہتی ہے لیکن جب اس کی بیوی خود بھی بیمار پڑ جاتی ہیتو چند دن سے زیادہ فاقے برداشت کرنا ان کے بس میں نہیں رہتا لہذا عبد اللہ ایک رات بھوک سے تنگ آ کر خود بیساکھی کے سہارے باہر نکلتا ہے اور ایک راہگیر کے سامنے دست سوال دراز کرتا ہے، راہگیر اس اچانک سوال سے خوف زدہ ہو کر بھاگ نکلتا ہے اور امرتیوں کا ایک بنڈل گرا جاتا ہے، اس کے بعد عبد اللہ کے ہاتھ یہ ہنر لگ گیا اور وہ یونہی گلی سے گزرنے والوں کو بھوت بن کر ڈراتا رہا اور اپنا پیٹ پالتا رہا، یہاں تک کہ ایک روز محلے والوں نے “بھوت “کو سنگسار کر دیا اور حادثے سے شروع ہونے والی داستان کا انجام ایک اور حادثے پر ہوا۔

Accountability

Accountability

اس دلچسپ افسانے کے بعد کتاب بنانے والے ماہرین کا کام شروع ہوتا ہے، جنھوں نے شاید سرسری طور پہ افسانے کو پڑھا اور مشق کے ایک ہی سوال سے افسانے کا خون کر دیا ، مشق کا پہلا سوال ہے کہ ” برے کا برا انجام” کے عنوان سے کہانی تحریر کریں، ملاحظہ فرمایا آپ نے، گویا صدیقی صاحب نے افسانے کی بجائے جیسی کرنی ویسی بھرنی پہ منتج ہونے والی کہانی لکھی تھی، اس عظیم پیراڈاکس نما سوال سے آپ سوال بنانے والے کی ادب فہمی اور اعلی فکری صلاحیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں، یعنی چونکہ گاڑی کے مالک کا کوئی قصور نہیں تھا اس لیے اس کو انشورنس کی رقم بطور انعام مل گئی اور رکشا ڈرائیور نے گاڑی سے ٹکرا کر جرم کیا تھا اس لیے اسکو برے کا برا انجام مل گیا، اب اس سوال کے بعد مجھ ایسا سر پھرا استاد اگر بچوں سے سوال کرے کہ عبد اللہ کا قاتل کون تھا تو ہمارے پڑھے لکھے بچے سوائے اس کے کیا جواب دے سکتے تھے کہ وہ اپنا قاتل خود ہی ہے۔۔۔ لہذا میں نے فیصلہ کیا کہ اپنی الجھن بچوں تک پہنچاوں اور پھر اپنے سوال کو دہراوں تو آہستہ آہستہ بچے متوجہ ہوئے کہ کچھ نہ کچھ غلطی پولیس کی اور گاڑی کے ڈرائیور کی اور اہل محلہ کی بھی ہے کہ جنھوں نے مجبور کیا کہ عبد اللہ بھیک مانگے اور پھر راہگیروں کو لوٹنے پہ مائل ہو جائے، تو جناب میں نے تو بچوں کو متوجہ کر لیا کہ ہمیشہ غریب سیاہ فام ہی کرپٹ نہیں ہوتا بلکہ اثر و رسوخ رکھنے والا بڑی گاڑی میں بیٹھنے والا سوٹ بوٹ پہننے والا افسر بھی کرپٹ ہو سکتا ہے، اگرچہ اس کو کرپٹ کہنے سے بالترتیب کرپشن اور ملکی معیشت کو نقصان پہنچنے کا شدید خطرہ موجود ہے پر اس معاملے میں معیشت کی پروا نہ کیجیے، جہاں ستیا ناس وہاں سوا ستیا ناس سہی لیکن کم سے کم بچوں کے ذہنوں پہ فولادی ٹوپیاں رکھ کر انھیں بند تو نہ کریں۔

تحریر : سید زین عباس زیدی