بڑے رسوا ہو کر تیرے شہر سے ہم نکلے

Tahir ul Qadri

Tahir ul Qadri

تحریر: مجیداحمد جائی

پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں آئے روز سیاست کے ڈرامے آن ائیر ہوتے رہتے ہیں۔کبھی آزادی ڈرامہ،کبھی لانگ مارچ ڈرامہ تو کبھی مرسو ں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں ڈرامہ۔کبھی انقلاب ڈرامہ تو کبھی دھرنا ڈرامہ۔بیرون ملکوں میں ان ڈراموں کی بڑی مانگ ہے اور ڈالرز میں یہ ڈرامے فروخت ہوتے ہیں۔ ہمارے سیاستدان جو اندر سے ہمارے نہیں ہوتے ڈالرز میں جھولے لیتے ہیں۔گرج گرج کر ملک کے ساتھ ہمدردی کے دعوے فرماتے ہیں۔ مگر ٹھنڈی ہوائوں کے مزے لینے جاتے ہیں تو سب بھول جاتے ہیں کہ پاکستان ہمارے ملک ہے اور اس ملک کی عوام کے ساتھ وعدے بھی کر آئے ہیں۔۔اپنے ضمیر وہی فروخت کر آتے ہیں اور پاک وطن میں صرف کھوکھلا جسم لے کر آتے ہیں۔روح روتی بلکتی رہتی ہے ۔مگر یہ سنتے ہی کب ہیں۔

مجھے نہ سیاستدانوں سے محبت ہے اور نہ ہی سیاست کے کھیل میں کوئی دل چسپی ہے۔میرا دل اس پاک وطن کی عوام کو مرتے، کرہتے، سسکتے دیکھ کر خون کے آنسو روتا ہے۔سر شرم سے جھک جاتا ہے لیکن اس ملک کے حکمرانوں، سیاستدانوں کے عقل دنی پر قفل ہی لگے رہتے ہیں۔میرے دوست فرماتے ہیں جو سیاست کے میدان میں قدم رکھتا ہے ان کے ضمیر مردہ ہو جاتے ہیں۔یہ بے حس ہو جاتے ہیں۔وہ صرف اور صرف اپنے مفاد کے لئے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں۔جھوٹ ڈھٹائی سے بولتے ہیں ۔سیاست ہی وہ جگہ ہے جہاں جھوٹ کثرت سے بولا جاتا ہے۔رشوت ،لوٹ مار ،کرپشن کے پلان ہوتے ہیں۔جہاں جعلی ڈگریاں بھی کام آتی ہے۔جہاں رکھ رکھائو چلتا ہے۔اعلیٰ عہدوں کی تقسیم کے لئے اپنے فرزند،کارفرما منتخب ہوتے ہیں۔

عوام کا کیا ہے ،جھوٹے وعدوں پر یقین رکھنے والی،ہر بار دھوکہ کھانے والی بیچاری عوام بے بسی کے آنسو روتی رہتی ہے۔بھوک ،پیاس سے انکے بچے مرتے ہیں۔وڈیروں کے ڈیروں پر ان کی عزتیں نیلام ہوتی ہیں۔شہرکے سڑکوں پر ان کے بیٹے وزیروںکے گاڑیوں تلے کچلے جاتے ہیں۔سیاستدانوں کے بیٹے دن ڈیہاڑے گولیوں سے بھون دیتے ہیں۔کس نے پوچھنا ہے۔نہ قانون ان کا،نہ کوٹ کچہری ان کا۔نہ عدالتیں ،نہ تھانے ان کے،نہ ان کے پاس سفارش،نہ ڈالرزجائیں تو جائیں کہاں؟روزی روٹی کے لالچ میں آکر سیاستدانوں کے دعووں پر یقین کر کے ان کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔سیاستدان ان کو مہرہ بناتے ہیں۔ان کے کندھوں پر بندوق رکھ کر چلاتے ہیں۔ان کے دم سے حکومتیں گِرتی بھی ہیں حکومتیں بنتی بھی ہیں۔

مگر ان کی جھونپڑی میں کل بھی فاقے تھے آج بھی فاقے ہی ہیں۔ان کے بچے ڈگریاں لے کر سڑکوں پر خاک چھانتے پھرتے ہیں۔ان کی بیٹیاں کل بھی نوکرانی بن کر ان سیاستدانوں کے گھروں میں جھاڑولگاتی برتن دھوتی تھیں۔آج بھی وہی کرتی ہیں۔ان کی مرضی پر جیتی ہیں۔اِن کی اپنی زندگی ہوتی ہی کہاں ہے۔؟

بات ہو رہی تھی دھرنوں کی،انقلاب کی،لانگ مارچ کی۔طویل ترین دھرنوں میں ایک انقلاب دھرنا آخر کاراختتام کو پہنچا۔کیا کھویا کیا پایا۔؟یہ توطاہر القادری باخوبی جانتے ہوں گے۔لیکن بے بسی کی چکی میں پستی عوام کو کچھ بتا کرتو جاتے۔سچ تو یہ ہے نہ انقلاب آیا نہ ہی شہادت ملی۔قادری صاحب جو گربیان کھول کھول کر سینہ دکھاتے تھے اور فرماتے تھے ظالمو ”چلائو گولی”۔اب تو نہ گولی کھائی نہ کیپسول ،چلتے بنے۔بارہا فرمایا،جو انقلاب ڈرامے سے واپس جائے گا مار دیا جائے گا۔اب ذرا بتائیں تو سہی کس کو مارنا ہے کس کو مرنا ہے۔شہادت کے دعوے دار کب شہادت کے منصب پر فائز ہو رہے ہیں۔؟

Revolution

Revolution

طاہرالقادری صاحب اپنے ہی قول، اپنے ہی الفاظ،اپنے ہی بیان سے مکر گئے۔سچ جھوٹ میں بدل گیا ۔سبھی دعوے ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔اگست کے مہینے میں بڑا جوش تھا،ولولہ تھا،ہم یہ کریں گے وہ کریں گے۔لیکن ۔۔۔۔۔۔لیکن کچھ بھی کر نہ پائے۔ہو سکتا ہے خفیہ طور پر ڈالرز مل بھی گئے ہوں۔کون جانتا ہے۔؟لیکن قادری صاحب ان مریدوں، قائدین کا کیا کریں ؟جو انقلاب دھرنا ختم کرنے کے اعلان کے ساتھ ہی جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور بلک بلک کر روتے رہے۔ کسی نے ان کے آنسو صاف کیے نہ کسی نے ان کی آہ بکا سنی۔

طاہر القادری اپنا بوریا بستر گول کیے روپوش ہو گئے۔مگر جاتے ہوئے بتاتے تو جاتے کہ کینڈا جائیں یا کہیں اور موج مستی فرمائیں گے۔
حیر ت ہے طویل ترین انقلاب دھڑنا فرما کر بھی ڈھرم سے گِر پڑے۔اب تو یہی کہہ سکتے ہیں قادری صاحب اپنے بیانات پر غور کریں اور ان کی آڈیو،ویڈیو میڈیا سے لے کردیکھیں اورکہیں جنگل میں پڑائو ڈال لیں تاکہ آئندہ کوئی نئے ڈرامے کا اسکرپٹ تیار کر پائیں۔ ایک انقلاب لانگ مارچ ڈرامہ قادری صاحب نے زرداری کے دور حکومت میں بھی رچایا تھا۔بارش میں ٹھڑاتی عوام مرتی رہی اور پھر جناب قادری صاب ”مک مکا”کرکے بیرون ملک جا کر آرام فرمانے لگے۔

اب کی بار بھی وہی ہونا ہے جس کا ہم پہلے ہی سے کہہ چکے ہیں۔ابھی تو قادری صاحب بار بار گنگنا رہے ہوں گے”بڑے رسوا ہو کر تیرے شہر سے ہم نکلے صنم”۔یہاں سے فرصت ملے تو مریدوں ،قائدین سے حال احوال ضرور پوچھ لینا، بیچاری رو رو کے ہلکان ہوئے جاتے ہیں۔ میری سیاستدانوں، حکمرانوں، قادری صاحب سے عوام کے ایک ادنی سا فرد کی حیثیت سے استدعا ہے۔خداراہ اب تو غریب عوام کا خون نچوڑنا بند کر دو۔ان کو انہی کے حال پر چھوڑ دو ۔ہو سکتا ہے اس طرح یہ بنیادی حقو ق حاصل کر پائیں۔

Abdul Majeed Ahmed

Abdul Majeed Ahmed

تحریر: مجیداحمد جائی
majeed.ahmed2011@gmail.com